کیا ایران سعودی عرب تعلقات بحالی کے قریب ہیں؟

Spread the love

عراق کی سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی ہےکہ دونوں ملکوں میں مذاکرات بدستور ہو رہے ہیں ، اہم اور بنیادی معاہدوں تک پہنچنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خطے میں اتفاق اور توازن قائم کرنے کے لیے بغداد نے دونوں ملکوں میں مذاکرات کے پانچویں دور کی میزبانی کی۔ عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی بات چیت کے دوران موجود تھے۔

عراقی وزارت خارجہ کے مطابق تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی کا امکان ہے۔اس سے عراق کی سلامتی اور خودمختاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام اور توازن میں مزید مدد ملے گی۔
ہفتے کو عراقی وزیر اعظم نے تہران میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کے موقع پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی پر بھی زور دیا تھا۔جس کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے بیان میں دعویٰ کیا کہ سعودی عرب ہمارے ساتھ سفارتی مذاکرات کی بحالی کا خواہش مند ہے اور ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016ء سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں لیکن عراق نے حالیہ مہینوں میں مذاکرات کے کئی ادوار کی میزبانی کی ہے ۔ عراقی وزیراعظم نے ہفتے کو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ خطے میں سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانے کی حمایت پرتبادلہ خیال کیا۔عراق کے وزیراعظم نے جدہ کے بعد تہران کا بھی دورہ کیا تھا جس کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات کی بحالی کی خبریں سامنے آئیں۔
ایک طرف ایران کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال ہونے میں راہموار ہو رہی ہے۔ دوسری طرف قطر کی وساطت سے امریکا اور ایران بالواسطہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے مذاکرات رواں ہفتے شروع ہونے کا بھی امکان ہے۔ ایران کی جوہری مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن محمد میراندی کے مطابق قطر کی وساطت سے امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے مذاکرات کئے جائیں گے۔ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا ’’ایران نے قطر نے انتخاب اس لئے کیا ہے کیونکہ قطر دوست ملک ہے‘‘۔
ایران اس بات پر مصر تھا کہ اس کی سپاہِ پاسداران انقلاب کوامریکا کی غیرملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالا جائے اور اس پر عاید سخت پابندیوں کو ختم کرے لیکن بائیڈن انتظامیہ اس کے اول الذکر مطالبے کو تسلیم کرنے کو تیارنہیں۔
امریکا اور ایران گذشتہ سال اپریل سے ویانا میں جاری بالواسطہ مذاکرات میں مارچ میں جوہری معاہدے کی بحالی کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن پھر دونوں ملکوں کی جانب بعض شرائط عاید کیے جانے کے بعد یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔ترجمان ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق آئندہ شروع ہونے والے مذاکرات کا ایران کے جوہری پروگرام کے پہلوؤں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے ہے۔ جن نکات پر اختلافات پایا جاتا ہے ان ہی کے بارے میں گفتگو ہو گی۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے امریکا ذمہ دار ہے۔ جوہری معاہدے کی بحالی کی گیند اب امریکا کے کورٹ میں ہے۔
ایران کے اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار علی شامخانی نے یورپی یونین کے مذاکرات کار جوزپ بوریل کے ساتھ میٹنگ کے دوران کہا کہ مغربی طاقتوں کے ‘غیر قانونی رویے’ قائم رہنے تک تہران اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھے گا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘ارنا’ کے مطابق شامخانی کا کہنا تھا کہ ” امریکا کے یکطرفہ فیصلوں اور یورپ کی ان پر عدم دلچسپی کے ردعمل میں ایران کے جوہری شعبے میں حالیہ پیش رفت منطق اور قانون کے دائرے میں پوری اترتی ہے اور اسے اس وقت تک روکا نہیں جائے گا جب تک مغرب اپنی غیر قانونی سرگرمیاں تبدیل نہیں کرتا۔”