سوڈان میں صورتحال تشویشناک،ہلاکتوں کی تعداد500سے تجاوز کر گئی،ہزاروں افراد کی نقل مکانی

Spread the love

سوڈان کےمتحارب فوجی دھڑوں کے درمیان جنگ بندی کی 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن آج ختم ہو رہی ہے۔ خرطوم میں15 اپریل سے فوج اور پیرا ملٹری کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپیں 11 صوبوں تک پھیل گئی ہیں۔
سوڈان کے آرمی چیف جنرل عبدالفتاح البرہان  نے ریپڈ سپورٹ فورسز کے ساتھ جھڑپیں جاری ہونے کے باوجودجنگ بندی میں مزید 72 گھنٹے کی توسیع کی حمایت کر دی ہے۔فوج کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جنوبی سوڈان، کینیا اور جبوتی کے صدور نے دونوں افواج کے درمیان جنگ بندی اور مذاکرات میں توسیع کے لئے اہم کردار ادا کیا۔

عینی شاہدین کے مطابق فائر بندی کےباوجود تازہ فضائی حملوں  بھی کئے گئے ہیں۔ فوجیوں نےتیل صاف کرنے کے ایک بڑے کارخانےاوربجلی گھرپر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیاہے۔

جنگ بندی کے باوجود فریقین میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے سوڈان میں دوسرے امریکی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ گذشتہ روز  بھی مصر کے ایک سفارت کار بھی لڑائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اب تک جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد513 تک پہنچ گئی ہے۔4ہزار سے زائد شدید زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب کے تعاون  سے خانہ جنگی کے شکار ملک سے غیرملکیوں کے انخلاءکا عمل جاری ہے۔فرانسیسی بحری جہاز ’لورین‘ جنگ زدہ سوڈان سے چار سو افراد کو لے کر سعودی عرب کی جدہ بندرگاہ پر پہنچا ۔ فرانسیسی فریگیٹ پر آنے والوں میں سوڈان میں اقوام متحدہ کے عملے کا ایک مشن بھی شامل تھے۔اس سے قبل تیسرا قافلہ ایک ہزار687 افراد کو لے کر تقریباً 8 گھنٹے کے سفر کے جدہ کے شاہ فیصل نیول بیس پر پہنچاتھا۔

خرطوم میں پاکستانی سفارتخانے میں ایک خصوصی ہیلپ لائن بھی قائم کیا گیا ہے جو وہاں سفارتی عملہ پھنسے ہوئے پاکستانیوں سے مسلسل رابطے میں ہے۔پاکستانی سفارتخانے کے مطابق 200 پاکستانیوں  کو  خرطوم سے پورٹ سوڈان پہنچا دیا گیا ہے۔” اس نئے قافلے کے ساتھ ہی محفوظ طور پر سوڈان سے نکالے جانے والے پاکستانیوں کی مجموعی تعداد 937ہو چکی ہے۔ حکومت  کی جانب سےان کے لیے رہائش اور کھانے پینے کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے بتایا کہ خرطوم سے نکالے گئے پاکستانیوں کو پورٹ سوڈان سے جدہ اور پھر وہاں سے پاکستانی فضائیہ اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی خصوصی پروازوں کے ذریعہ وطن لایا جائے گا۔ بھارت نے بھی سوڈان میں جنگ بندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب تک اپنے 534 شہریوں کو جنگ زدہ علاقے سے نکال چکا ہے۔

اقوام متحدہ کےخصوسی نمائندے والکر پرتھس نےسلامتی کونسل کو بتایا کہ  فائر بندی پرمکمل عمل درآمد نہیں کیاجارہا۔عسکری ہیڈ کوارٹرز  پر حملے ہوئے ہیں ۔ دارالحکومت  خرطوم کے مختلف علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔ یواین کے نمائندے کے مطابق دونوں فوجی سربراہوں سے بات چیت کی ہے لیکن  وہ سنجیدہ  مذاکرات کے خواہاں نہیں۔

یواین کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور جوائس مسویا نے کہا ہے کہ سوڈان میں لڑائی انسانی بحران کو تباہی میں بدل رہی ہے۔ یہ تنازعہ نہ صرف ان ضروریات کو مزید بڑھا رہاہے بلکہ ا س تنازعے نے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں ڈال دی ہیں جس سے انسانی زندگیوں کوخطرہ لاحق ہے ۔ اس ملک میں میں 15اعشاریہ8 ملین  افراد کوامداد کی اشد ضرورت ہے۔دارلحکومت اور گرد ونواح کے کم از کم 20 ہسپتالوں کو نقصان، فوجی استعمال، یا وسائل کی کمی کی وجہ سے بند کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

بجلی کی کمی اور ایندھن کی قلت سے ویکسین کے ذخیرے اور پانی کی فراہمی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، جو بیماری کے پھیلاؤ کا پیش خیمہ ہے۔

امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کی آمد متوقع ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق 15 اپریل سے جاری خانہ جنگی کے باعث 20 ہزار افراد چاڈ میں داخل ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ کے قریب مزید افراد پہنچنے والے ہیں۔ چاڈ پہلے ہی پہلے ہی نصف ملین سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق سوڈان میں جہاں سب سے زیادہ شدید لڑائی دارالحکومت خرطوم میں ہو رہی ہے، وہیں لڑائیاں سوڈان کے مغربی علاقے دارفر تک بھی پھیل چکی ہیں، جس نے 16 سال سے جاری تنازعے کی یادیں تازہ کر دی ہیں، جس میں 3لاکھ افراد مارے گئے تھے۔

 

سوڈان لاکھ جنوبی سوڈانی مہاجرین کا گھر ہے، جن میں سے ایک چوتھائی خرطوم میں رہتے ہیں، جو اب گولیوں اور ہوائی حملوں کی زد میں ہے۔

جنوبی سوڈان پہلے سوڈان کا حصہ تھا لیکن 2011 میں دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد اسے آزادی ملی۔