برطانوی وزیراعظم 45 روز بعد عہدے سے مستعفیٰ

Spread the love

برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس اپنے اقتدار کے محض چھ ہفتوں کے بعد ہی عہدے چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔

ایوانِ وزیرِ اعظم ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ سے ٹیلی ویژن خطاب میں انہوں نے کہا کہ اگلے وزیر اعظم کے منتخب ہونے تک میں وزیر اعظم رہوں گی۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مینڈیٹ نہیں دے سکتی جس پر مجھے کنزرویٹو پارٹی نے منتخب کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بننے سے قبل حکمران ٹوری پارٹی کی سربراہ کے طور پر اپنے انتخاب سے پہلے انہوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ اب ان وعدوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ ٹرس نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنی پارٹی کی اس حمایت اور اعتماد سے محروم ہو گئی ہیں، جس کا ان کی ذات پر اظہار ان کے پارٹی لیڈر کے طور پر انتخاب کے وقت کیا گیا تھا۔

لز ٹرس کے آئندہ دنوں مستعفی ہو جانے کے اعلان کے بعد برطانوی سیاست میں ایک نیا ریکارڈ بھی بن گیا ہے۔ وہ برطانیہ میں سب سے کم عرصے کے لیے اقتدار میں رہنے والی سیاست دان بن گئی ہیں۔اس سے قبل  جارج کیننگ کا 1827ء میں اس وقت انتقال ہو گیا تھا، جب انہیں وزیر اعظم بنے صرف 119 دن ہوئے تھے۔

دوسری جانب لیبر پارٹی کے لیڈر سر کیر سٹارمر نے لز ٹرس کے استعفے کے تناظر میں فوری عام انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں کو کچرے میں ڈال دیا ہے اور زندگی گزارنے کی لاگت کا بحران پیدا کیا ہے۔ اب انہوں نے معیشت کو اس بری طرح سے تباہ کر دیا ہے کہ لوگوں کو اپنے رہن پر ماہانہ 500 پاؤنڈ اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے جو نقصان کیا ہے اسے ٹھیک کرنے میں برسوں لگیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان میں سے ہر ایک بحران ڈاؤننگ سٹریٹ میں پیدا کیا گیا تھا لیکن اسے بھگتا برطانوی عوام نے۔ ان سب نے ہمارے ملک کو کمزور اور بدتر کر کے چھوڑ دیا ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملکہ برطانیہ کے جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے 10 دن کے بعد سے ہی لزٹرس کی مشکلات میں اضافہ شروع ہوگیاتھا۔ معاملےکو اس وقت تقویت ملی جب ان کے منی بجٹ کے پیش ہوتے ہی برطانوی وزیر اعظم کو اپنی وزیر خزانہ کی چھٹی کرنی پڑ گئی۔

ٹرس نے یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں گھریلو توانائی کے بلوں کو محدود کرنے کے لیے ایک مہنگی سکیم پیش کی، لیکن اس اعلان کو ملکہ کی موت سے گرہن لگ گیا، جس نے تمام سرکاری کاروبار کو 10 دن کے لیے معطل کر دیا۔

کارٹنگ نے ایک ’منی بجٹ‘ کا اعلان کیا جس میں توانائی کی سکیم کی قیمت 60 ارب پاؤنڈ اگلے چھ ماہ کے دوران تک کے لیے رکھی گئی لیکن فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں بتائے گئے۔

اس بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی ادائیگی کے لیے بڑے پیمانے پر نئے قرضے لینے کا اعلان کیا گیا۔اس کو سیاسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور غیر منصفانہ قرار دیا گیا لیکن سب سے زیادہ چونکا دینے والا دباؤ پاؤنڈ اور ڈالر کے موازنے میں قدر میں کمی بن کر سامنے آتا ہے۔اس کے بعد کوارٹنگ نے ٹیکس میں مزید کٹوتیوں کا عندیہ دے دیا جس کے بعد پاؤنڈ میں زیادہ گراوٹ دیکھی گئی۔

اس بجٹ کے بعد سے ٹرس اور کارٹنگ میں تناؤ دیکھا گیا اور ساتھ ہی بینک آف اگلینڈ نے 65 ارب پاؤنڈ کا لمبے عرصے تک کے لی بانڈز خریدنے کے لیے دو ہفتوں پر محیط پلان بھی متعارف کروادیا تاکہ ’مارکیٹ کے حالات میں توازن‘ لایا جاسکے۔

ٹرس اور کارٹنگ کو ایک ذلت آمیز یو ٹرن لینے پر مجبور ہونا پڑا، اور بات چیت کے بعد انکم ٹیکس کی اعلیٰ شرح میں منصوبہ بندی کے تحٹ کٹوتی کو ختم کرنا پڑا۔

پانچ اکتوبر کو اپنی کانفرنس کی تقریر میں، ٹرس نے اپنے ’ترقی، ترقی، ترقی‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عہد کیا لیکن وہ پارٹی کے باغیوں اور اعصاب شکن مارکیٹوں کو یقین دلانے میں ناکام رہی۔

مارکیٹوں میں ہلچل مچنے اور ٹرس پر دباؤ بڑھنے کے بعد وزیراعظم نے صرف 38 دن کے بعد کوارٹنگ کو برطرف کردیا۔ جس کے بعد انہوں نے سابق وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا انتخاب کیا۔اس کے بعد ہی وزیر داخلہ سویلا بریومین نے بھی امیگریشن کے معاملے میں تلخی پر استعفیٰ دے دیا۔اس کے بعد پارلیمان کے ووٹ کے ذریعے منحرف ٹوری اراکین پر زور دیا گیا کہ وہ حکومت اور ٹرس کو سپورٹ کریں مگر ووٹ جیتنے کے باوجود اراکین انحراف کر گئے۔

ٹرس نے کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی جانب سے 81ہزار326 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ رشی سنک کو 60ہزار399 ووٹ ملے، جو سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے دور میں وزیر خزانہ  کے عہدے پر فائز تھے۔

لز ٹرس کو الیکٹوریٹ سے محض 0.2 فیصد ہی سپورٹ ملی، جس کے اگلے دن ہی ملکہ نے ان کو وزیر اعظم مقرر کر دیاگیا تھا۔