اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کی پیمرا کے خلاف درخواست پر سماعت کی ۔ پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی اور پیمرا کی جانب سے بیرسٹر احمد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔
پی بی اے کے وکیل فیصل قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی 109 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کو لائسنس دیے جا چکے ہیں ۔ لینڈنگ رائٹس والے چینلز ملا کر تعداد ڈیڑھ سو تک پہنچ جاتی ہے۔ اینالاگ سسٹم میں اتنے ٹی وی چینلز کو دکھانے کی گنجائش ہی نہیں، پیمرا کے مطابق ڈیجیٹلائزیشن کے بعد استعداد بڑھ کر ساڑھے تین سو چینلز تک بھی ہو سکتی ہے، اس بات پر اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ پیمرا لائسنس جاری کرتے ہوئے آرٹیکل 19 کو کیسے دیکھتا ہے؟ مفادات کا ٹکراو نہیں ہوگا تو ہی اظہار رائے کی آزادی ہو گی، پوری دنیا میں مفادات کے ٹکراو کو دیکھا جاتا ہے یہ تو یہاں کوئی نہیں پوچھتا، پیمرا جو300 لائسنس دے رہا ہے یہ کس کو دے رہا ہے کس بنیاد پر دے رہا ہے؟
پیمرا کے وکیل نے موقف اپنایا کہ مفادات کے ٹکراو کا معاملہ اس کیس کا حصہ نہیں، پھر بھی اس معاملے پر عدالت کی معاونت کروں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کیا کوئی سیاسی جماعت ٹی وی لائسنس لے سکتی ہے؟جس پر پیمرا کے وکیل نے استدعا کی کہ مجھے اس معاملے پر معاونت کے لئے مہلت درکار ہو گی کیونکہ اگر لائسنسز اتنے ہی رہیں گے تو پیمرا ڈی ٹی ایچ میں کیوں انوسٹ کرے،زیادہ تر سسٹم اپ گریڈ ہو چکا ہے۔
پیمرا کے وکیل نے یہ بھی استدعا کی آپ کیس پیمرا کو بھیج دیں ہم اس کو دوبارہ دیکھ لیں گے،عدالت نے وکیل پیمرا کو ہدایات لے کر آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 9 مارچ تک ملتوی کر دی ہے ۔