آگ سے کھیلنے والا جل جاتا ہے،چین کی امریکہ کو وارننگ

Spread the love

چین اور امریکہ کے صدور کے درمیان طویل عرصے بعد ویڈیو لنک پر رابطہ ہوا ، دونوں رہنماؤں کی 2 گھنٹے 17 منٹ تک بات چیت ہوئی جس میں بالمشافہ ملاقات اور وقت کے تعین پر اتفاق کیا گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام بھی اس فون کال میں شامل تھے ۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے معاملے پر امریکی ہم منصب بائیڈن کا انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آگ سے نہ کھیلیں ، جل جائیں گے ۔ جس پر صدر بائیڈن نے کہاکہ تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی یکطرفہ کوششوں کی سختی سے مخالفت کریں گے۔

چین کے سرکاری میڈیا نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہیں بتا دیا ہے کہ امریکہ کو ”متحدہ چین کے اصول” پر عمل کرنا چاہیے۔ ”چین تائیوان کی آزادی کے ساتھ ہی اس میں کسی بھی بیرونی طاقت کی مداخلت کا بھی سخت مخالف ہے۔”

چین کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کو متنبہ کر دیا ہے کہ ”جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ جل کر رہ جائیں گے۔ امید ہے کہ امریکی فریق اس بات کو واضح طور پر دیکھ سکے گا۔”

صدر جو بائیڈن کے صدر بننے سے اب تک صدر شی سے یہ ان کی فون پر بات چیت کا پانچواں موقع تھا۔ انہوں نے تائیوان کے بارے میں کہا ‘امریکہ تائیوان کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کی یکطرفہ کوششوں کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ کوشش پورے تائیوان میں امن اور استحکام کو متاثر کریں گی۔’

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک امریکی اہلکار نے صحافیوں کونام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے بالمشافہ ملاقات کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس بات پر اتفاق کیا کہ اپنی ممالک کی ٹیمیں باہمی طور پر متفقہ وقت تلاش کرنے کے لیے فالو اپ کریں گی۔

وائٹ ہاؤ س کے مطابق بائیڈن نے کہاکہ امریکا اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنے یا آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی یکطرفہ کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا رہے گا۔

دونوں صدور کے درمیان ہونے والے رابطے میں امریکی حکام کے مطابق علاقائی اور عالمی ایشوز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ موسمیاتی تبدیلی، ہیلتھ سکیورٹی کے علاوہ امریکی شہریوں کو بلا جواز نظر بند کیے جانے کے موضوع پر بھی بات کی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کی تازہ ترین وجہ جو بائیڈن کی اتحادی اور ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کا جزیرہ نما ریاست کا ممکنہ دورہ ہے جس کی اپنی الگ جمہوری حکومت ہے۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کہہ چکے ہیں کہ ایشیا پیسفک میں چین کا جارحانہ رویہ ایجنڈے کا اہم حصہ ہوگا۔وہ فوجی ٹرانسپورٹ کے ذریعے تائیوان کا سفر کر سکتی ہیں، تائیوان اور چینی سرزمین کے درمیان مختصر سمندری فاصلہ ہے۔ چین نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دورہ، جس کی نینسی پیلوسی نے ابھی تصدیق نہیں کی، کیا جاتا ہے تو واشنگٹن کو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر نیسنی پیلوسی “فوجی مدد کے لیے کہا تو ہم ان کے محفوظ سفر کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔

جو بائیڈن اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے شی نگ پنگ کے ساتھ دیرینہ قریبی تعلقات ہیں لیکن بڑے پیمانے پر کوویڈ سفری پابندیوں کی وجہ سے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے دونوں رہنماؤں کی بالمشانہ آمنے سامنے ملاقات نہیں ہوئی۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق جو بائیڈن کا بنیادی مقصد 2 سپر پاورز کے درمیان کسی بھی ممکنہ تصادم کو روکنے کے لیے مضبوط تعلقات اور دوستی کی باڑ قائم کرنا ہے۔ تعلقات کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جب دونوں ممالک جمہوریت سے متعلق متضاد رائے رکھتے ہیں، دونوں جیو پولیٹیکل اسٹیج پر ایک دورے کے حریف ہیں، ان حقائق کے باوجود وہ دونوں آپس میں کھلے تنازع اور تصادم سے بچ سکیں۔

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق صدر جوبائیڈن نے چین سے کہا ہے کہ تائیوان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ اور دونوں صدور نے ”دو طرفہ تعلقات کے امور کے ساتھ ہی کئی دیگر اہم علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی بات چیت کی۔”

اس بات چیت کے بعد تائیوان کی وزارت خارجہ نے جمعہ کی علی الصبح اپنے ایک بیان میں امریکہ کی حمایت کے لیے بائیڈن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ سیکورٹی سے متعلق اپنی شراکت داری کو مزید مضبوط کرتا رہے گا۔

امریکی اور چینی رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت ایسے وقت ہوئی جب دونوں ملکوں کے درمیان عالمی مسابقت، انسانی حقوق، عالمی صحت اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے اختلافات کے ساتھ ہی کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اس ماحول میں چین اور امریکہ ایک ساتھ کام کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین اور تائیوان کا تنازعہ دہائیوں پرانا ہے اور چین کا کہنا ہے کہ چاہے طاقت کا ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے، بیجنگ اسے اپنے ملک کے ساتھ ایک دن مکمل طور پر ضم کر کے رہے گا۔ یوکرین پر روس کے حالیہ حملے کی روشنی میں چین کی جانب سے ایسے خطرات اور خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں جب یہ خبر آئی کہ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی تائیوان کا دورہ کرنے والی ہیں تو چین نے اس پر اپنے سخت رد عمل میں کہا کہ اگر انہوں نے جزیرے کا دورہ کیا تو اس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے۔

نینسی پیلوسی ایک طویل عرصے سے چین کی ایک سخت ناقد کے طور پر جانی جاتی ہیں ۔ انہوں نے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت بھی کی ہے۔

واشنگٹن ”ایک متحدہ چین” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سفارتی طور پر تائی پے کے بجائے بیجنگ کو ہی تسلیم کرتا ہے ۔ یعنی تائیوان کے امریکہ کے ساتھ کوئی سرکاری تعلقات نہیں ہیں۔ کیونکہ چین کا مطالبہ رہا ہے کہ دنیا کے ممالک بیجنگ یا تائی پے میں کسی ایک کے ساتھ ہی رسمی تعلقات رکھنے کا انتخاب کریں۔تاہم، امریکہ تائیوان کو سیاسی اور فوجی سطح پر کافی مدد بھی فراہم کرتا ہے، جو ایک طرح سے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ہی مترادف بھی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے اس ہفتے میڈیا بریفنگ میں بتایا تھا کہ ”اگر امریکہ اپنے اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے چین کی نچلی لائن کو چیلنج کرنے پر اصرار کرتا ہے، تو اسے یقیناً سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے پیدا ہونے والے تمام نتائج بھی امریکہ کو برداشت کرنا ہوں گے۔”

رواں برس جب امریکی کانگریس کے ایک وفد نے تائیوان کا دورہ کیا تھا تو اس وقت چینی وزیر دفاع نے بھی اپنے سخت رد عمل میں یہی کہا تھا کہ جو آگ سے کھیلتا ہے وہ جل جاتا ہے۔ تاہم فرق اتنا ہے کہ اس بار یہ بات خود چینی صدر نے جو بائیڈن سے براہ راست کہی ہے۔