او آئی سی کا ہنگامی اجلاس،قرآن پاک کی بیحرمتی جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات پرزور

Spread the love

سویڈن میں ایک عیدگاہ کے باہر قرآن کی بے حرمتی اور اس کیلئے حکومت کی اجازت کیخلاف عالم اسلام سراپا احتجاج ہے اور دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس جدہ ہیڈ کوارٹر میں ہوا۔ اجلاس میں پاکستان، اردن، انڈونشیا، ملائیشیا، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت رکن ممالک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان شریک تھے۔
پاکستانی مندوب برائے اسلامی تعاون تنظیم فواد شیر نے پاکستان کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کو قابل نفرت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب پوری امت مسلمہ عید الاضحیٰ منا رہی تھی اور دوسری جانب قرآن پاک کو جلانے جیسی گھناؤنی اور ناقابل برداشت حرکت کی گئی جس سے پوری مسلمان دنیا کو شدید تکلیف پہنچی۔اس موقع پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ کا کہنا تھا کہ قرآن پاک اور پیغمبر اسلام ﷺکی بے حرمتی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کیلئے بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کی ضرورت ہے جو منافرت کو پھیلنے سے روکتا ہے۔
او آئی سی نے اعلامیے میں اس قسم کے اقدامات کی سنگینی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ رواداری اور اعتدال پسندی جیسے اقدار کے پھیلاؤ اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے متصادم ہیں۔
او آئی سی کی جانب سے جاری اعلامیے میں متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان ’گھناؤنے حملوں‘ کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔
او آئی سی نے تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے، ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں 28 جون کو مرکزی مسجد کے باہر عید کے روز ایک انتہا پسند دائیں بازو کی تنظیم کے رہنما سینتیس سالہ عراقی سلوان مومیکا نے مقدس ترین کتاب کی بےحرمتی کی ۔پاکستان سمیت عراق، ایران، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک نے اس واقعے کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس طرح کا عمل دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین نے بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ جارحانہ، بے عزتی اور واضح طور پر اشتعال انگیزی پر مبنی ہے۔یورپی یونین کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق یورپی یونین مذہب یا عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی کیلئے کھڑی ہے، نسل پرستی، نفرت انگیزی، عدم برداشت کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں، یورپی یونین کا مزید کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے باہمی افہام و تفہیم اور احترام کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہوجائیں، یہ بڑھتے ہوئے تنازعات کو روکنے کا وقت ہے۔
امریکا کی جانب سے بھی سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ اسٹاک ہوم مسجد کے باہر احتجاج کی اجازت دینا اظہار رائے کی آزادی تھی لیکن یہ ایسے کردار کی توثیق نہیں تھی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے واقعے پر سویڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انقرہ کبھی بھی اشتعال انگیزی یا دھمکی کی پالیسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مغرور مغربی لوگوں کو سکھائیں گے کہ مسلمانوں کی مقدس اقدار کی توہین کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔
مراکش نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے سویڈن سے اپنے سفیر کو غیر معینہ مدت کے لیے واپس بلا لیا ۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بے حرمتی کو “اشتعال انگیز، ناجائز اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔سعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ ان نفرت انگیز اور بار بار ایسے شرمناک اقدامات کو کسی بھی جواز کی بنا پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔مصر نے کہا کہ عراقی شخص کا یہ عمل انتہائی شرمناک تھا، باالخصوص عید الاضحیٰ کے موقع پر۔ اسی طرح عراق نے سویڈن کے سفیر کو طلب کیا اور شدید احتجاج کرتے ہوئے واقعے کو نسل پرستانہ قرار دیا۔عراق نے سویڈن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملزم کو حوالے کریں تاکہ ان کے خلاف عراق کے قوانین کے مطابق کارروائی کی جاسکے۔
مسلم ملکوں سمیت عالمی سطح پر سخت ردعمل کے بعد سویڈن نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کو انفرادی قرار دے کر مسترد کر دیا۔پاکستان میں سویڈن کے سفارت خانے کی جانب سے حکومتی بیان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کیا گیا جس می کہا گیا کہ سویڈش حکومت اسلاموفوبیا پر مبنی اس عمل کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔ یہ واقعہ سویڈن کی حکومت کا موقف واضح نہیں کرتا