اقوم متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی طالبان حکومت کے12 ماہ کی کارکردگی رپورٹ

Spread the love

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے طالبان حکومت کے  ایک سال  کی کارکردگی پر اپنی جائزہ رپورٹ  جاری کر دی۔ رپورٹ میں افغانستان کی معیشت کے گھمبیر صورتحال کا خاکہ پیش کیا ہے ۔جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے ایک سال بعد ملک کو بڑھتے ہوئے بحرانوں اور ایک خستہ حال معیشت کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال کے دوران افغان معیشت کا حجم 5 بلین ڈالر سکڑا ہے۔ افغانستان میں اسی عرصے کے دوران اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں 35 فیصد بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی سے شہری بری طرح متاثر ہوئے ہیں،جس سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ تقریباً 7لاکھ افراد بے روز گار ہوئے جن میں اکثریت خواتین کی تھیں جس کی وجہ سے وہ اپنے اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ افغان عوام کوگزشتہ 40سالوں سے مسلسل انتہائی مشکل حالات اور متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔افغان معیشت کی تیزی سے گرتی صورتحال پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ڈی پی کو تشویش ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 12 مہینوں کے دوران بڑے بحرانوں نے جنم لیا جس میں انسانی ہنگامی صورتحال، بڑے پیمانے پر معاشی بحران،لڑکیوں کی ثانوی تعلیم تک رسائی سے انکار کے علاوہ اس کے بینکاری اور مالیاتی نظام کا مفلوج ہونا اور خواتین کی نقل و حرکت اور قومی معاشی دھارے میں شرکت پر پابندیاں شامل ہیں۔

یواین ڈی پی  کے مطابق  افغان معیشت کے استحکام میں 10 سال لگے، تباہ ہونے میں ایک سال سے بھی کم عرصہ لگا۔یو این ڈی پی کے سربراہ اچیم سٹینر نے افغانستان میں جاری بحران پر مضبوط، مربوط ردعمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال جو کام ہوا اس کی بنیاد پر نصف ملین سے زیادہ لوگوں کی روزی روٹی کو بہتر بنانے کے لیے متعدد شعبوں میں موزوں کوششوں سمیتشدید بحران کو روکنے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی حمایت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔افغانی شہری اپنی آمدن کا 60 سے 80 فیصد حصہ خوراک اورایندھن پرخرچ کرتے ہیں، 95 سے 97 فیصد افغانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہے ہیں۔ہمیں افغانوں کو آنے والے موسم سرما سے نمٹنے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں2008 کے بعد سے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی ) میں مسلسل کمی کے باعث اپنی معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنے لگا تھا، جو حکومت منتقلی کے وقت کل حکومتی اخراجات کا 75 فیصد اور جی ڈی پی کا تقریباً 40 فیصد تھا۔حکومت منتقلی کے بعد غیر ملکی عطیہ دہندگان نے بڑی حدتک امداد روک دی تھی۔ بیرونی تعاون کے بغیر افغانستان کو اب زراعت اور کوئلے کی برآمدات سے حاصل ہونے والی محدود ملکی آمدنی پر انحصار کرنا ہوگا۔حکام نے ریونیو کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جس میں کسٹمز جیسے اہم ریونیو کے سلسلے میں بدعنوانی کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا ہے اور نجی شعبے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں تک رسائی حاصل کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2 دہائیوں سے بین الاقوامی امداد اور درآمدات پر بھاری انحصار، صنعت کاری اور مسابقت کی کمی اور علاقوں کے درمیان محدود نقل و حرکت اور رابطے دیگر عوامل کے علاوہ افغانستان کی ترقی کی رفتار میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔یو این ڈی پی کے تجزیہ کی پیشن گوئی ہے کہ خواتین کو کام کرنے سے روکنے کے نتیجے میں 1 بلین ڈالر تک جبکہ ملک کی جی ڈی پی کا 5 فیصد تک معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق افغانستان کے مستقبل کے لیے اہم ہیں۔

یو این ڈی پی کے ایشیا پیسیفک ڈائریکٹر کنی وگناراجا نے کہاکہ خواتین کی ملکیت والے34 ہزار چھوٹے کاروباروں کو مدد فراہم کی ہے اور رواں سال کے آخر تک ہمارا ہدف 50ہزارخواتین کی ملکیت والے کاروبار تک پہنچانا ہے۔یو این ڈی پی کے رہائشی نمائندے عبداللہ الدارداری نے کہا کہ وہ یو این ڈی پی کی جانب سے فراہم کردہ 300 ملین ڈالر کی فنڈنگ کے لیے شکر گزار ہیں،تاہم معاشی بحالی کے لیے مزید امداد کی ضرورت ہے جو افغانستان کی معیشت کی بہتر بحالی کے لیے بے حد ضروری ہے۔