خواجہ سراوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ کیوں!

Spread the love

ٹرانس کمیونٹی کی نمائندہ نایاب علی نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ 2018 پاکستان کی خواجہ سرا برادری کے تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس قانون پر انتہائی دائیں بازو کی طرف سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو جسمانی اور ڈیجیٹل طور پر بے مثال نفرت کا سامنا ہے۔ اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم کی اجازت نہیں دینگے،پاکستان کی پارلیمنٹ نے ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ برائے حقوق) ایکٹ کی منظوری مئی 2018 میں دی تھی۔جس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون شامل تھا۔ملک میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کو ہم جنس پرستی اور ایل جی بی ٹی سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ سرا سر غلط ہے۔ حالیہ مہینوں میں خواجہ سرا برادری کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ۔ خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراؤں کے قتل کی بڑھتی ہوئی کوششوں اور قتل کے واقعات نے جڑواں شہروں کے لوگوں سے کہا کہ وہ نہ صرف تشدد کے خلاف اپنی مزاحمت کو تسلیم بلکہ ان کی برادری کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی منظم کوشش بھی کریں۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اپنے دیگر خواجہ سرا ء ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مئی 2018 میں، پاکستان کی پارلیمنٹ نے ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ برائے حقوق) ایکٹ، 2018 کی منظوری دی۔ یہ قانون پاکستان میں خواجہ سراؤں کی جانب سے نو سال کی مشترکہ عدالتی سرگرمی، عوامی بحث اور سرگرمی کے بعد نافذ کیا گیا تھا اور اسے بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔

انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ یہ قانون ہم جنس پرستوں کی شادی کو فروغ دیتا ہے جو کہ پاکستانی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے، اور کسی کو بھی اپنی جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے، تاہم قانون کے مطابق صرف تیسری صنف کے زمرے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے قانون پر تنقید کرنے والوں کو پہلے اس قانون کو پوری طرح پڑھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں جب یہ قانون ڈرافٹ کیا جارہا تھا تب اسے سائینسی ،طبی، ثقافتی ،مذہبی بنیادوں پر جانچا گیا تھا جسکو علم نہیںہے وہ پہلے قانون کو پڑھے پھر تنقید کرے۔ یہ انتہا پسند اقلیتیں اب اس قانون کو غیر اسلامی بنانے کی کوشش میں اکثریت کی حکمت اور مرضی سے بنائے گئے قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم حقیقت میں ججوں کو ان کی ایک بھی دلیل قابل اعتبار نہیں ملی۔ سماعتیں لوگوں کی ہمدردیاں کافی نہیں ہیں۔ میڈیکل بورڈ صرف خواجہ سرا کے لئیے نہیں بلکہ تمام مرد و خواتین کے لئیے ہونا چاہیے تاکہ میڈیکل بورڈ کے تحت چھپے محنث نکل ائیں اور ہماری تعداد بڑھ جائے تاکہ اسمبلی میں ہمیں نمائندگی مل سکے ۔ ہم نے وفاقی شرعی عدالت میں اپنا جواب جمع کروادیا ہے۔پریس کانفرنس میںٹرانس جینڈر کمیونٹی ہزاروں شہریوں نے شرکت کی جن میں ٹرانس افراد، خواتین، طلباء اور ترقی پسند تنظیمیں شامل تھیں۔