میانمار میں 30افرد گرفتاری کے بعد ہلاک، لاشیں بھی جلا ڈالیں

twitter image
Spread the love

میانمار میں فوج نے ایک گاوں کے درجنوں مکینوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان میں سے 30 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ، لاشوں کو آگ لگا دی،
افسوسناک واقعہ میانمار کی ریاست کایہ کے گاؤں موسو میں پیش آیا ، ہلاک ہونے والوں میں بوڑھے ،خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اندوہناک واقعے کے بعد عوام میں فوج کے خلاف غم و غصہ میں شدید اضافہ ہوا ہے۔

میانمار کے انسانی حقوق گروپ نے واقعے کی مذمت اور اسے انسانی حقوق کی خلاف قرار ورزی قرار دیا ہے، میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں جلے ہوئے ٹرک بستروں پر لاشوں کی جلی ہوئی باقیات دکھائی دے رہی ہیں۔

برطانوی تنظیم سیو دی چلڈرن کے میانمار میں پیش آنے والے واقعے میں عملے کے دو ارکان لاپتہ ہو گئے ہیں ، ترجمان کےمطابق عملے کے دونوں ارکان دفتر سے واپس گھر جا رہے تھے، ان میں سے ایک کے پاس اپنی گاڑی تھی جو جلی ہوئی ملی ہے ۔

فوج نے ہلاک ہونے والوں کو شدت پسند قرار دیا ہے ، ترجمان میانمار فوج کا کہنا ہے کہ لوگ سات گاڑیوں میں تھے ، انہیں روکا گیا لیکن وہ نہیں رُکے جس کے باعث انہیں مارا گیا۔

کیرنی نیشنلٹیز ڈیفنس فورس کا کہنا ہے کہ مرنے والے ان کے ارکان نہیں تھے بلکہ وہ شہری تھے جو تنازعات سے پناہ مانگ رہے تھے ، گروپ کے ایک کمانڈر نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ تمام لاشیں مختلف سائز کی تھیں، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل تھے۔

واضح رہے کہ میانمار میں رواں سال فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سانگ سوچی کی گرفتاری کے بعد انتشار کا شکار ہے ،فوج نے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا،فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

رواں ماہ 6دسمبر کو میانمار کی حکومت نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کو فوج کے خلاف اکسانے اور کوویڈ 19 کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر 5 سال کے لیے جیل بھیجنے سنائی تھی، انہیں آنگ سان سوچی کو 2 سال قید سیکشن 505 (بی) کے تحت جبکہ 2 سال قید قدرتی آفات کے قانون کے تحت سنائی گئی تھی۔

آنگ سان سوچی نے فیصلے میں مجرم قرار دیا گیا تھا،میانمار فوج کے سربراہ من آنگ ہلینگ کی طرف سے جزوی معافی کے بعد سزا میں کمی کی گئی تھی۔