جی20 کی آڑ میں مُودی کی خون سے کھیلی ہُولی سب پر آشکار

Spread the love

مُودی کی بہیمانہ مُسلم نسل کُشی، وادی مقبوضہ کشمیر مسلمانوں کا اجتماعی قبرستان بن گیا۔ بھارتی ماہرِ نشریات و تاریخ دان انگانہ چَٹرجی نے 2012میں بانڈی پورہ ، بارہ مولہ اور ضلع کوٹورا میں 2700 اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی۔ کشمیر کے 55 گاؤں میں اجتماعی قبروں سے 2ہزار943 لاشیں برآمد ہوئی جن میں سے 80 فیصد کی شناخت نہیں ہوسکی۔

ایسوسی ایشن آف پیرینٹس آف ڈِس اپییرڈ پرسن کے مطابق 800 کشمیری لاپتہ اب بھی لا پتہ ہیں۔ 2011 میں ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی سرکار کو اجتماعی قبروں اور ناقابل شناخت لاشوں کی انکوائری کے لئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔کشمیر ہیومن رائٹس واچ نے چار اضلاع میں 2ہزار730 لاشوں کا اجتماعی قبروں میں سے سراغ لگایا۔ ستمبر 2006 کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت ان الزامات کی تحقیقات سے مسلسل فرار ہے۔

جولائی 2008 پورپی پارلیمنٹ نے بھی کشمیر میں اجتماعی قبروں کی قراردار پاس کی۔ قرارداد میں بھارتی حکومت سے اجتماعی قبروں کی تحقیقات اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔بھارت نے  اپنی پُر تشدد  کاروائیوں کی تحقیقات سے بچنے کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے پر 1993سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔

کیا جی20 ممالک کا بھارت کی انسانی حقوق کی دل سوز خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرکے سرینگر میں اجلاس میں شرکت کرنا انسانیت کی تذلیل نہیں ہے؟