چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

Spread the love

پاکستان تحریک انصاف  نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی برطرفی کے لیے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کر دیا ہے۔ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جانب دار ہیں، چنانچہ وہ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں، اس لیے اُنھیں عہدے سے ہٹایا جائے۔

ریفرنس تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے وکیل بابراعوان کے ذریعے دائر کیا۔ریفرنس میں موقف اپنایا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو جنوری 2020 میں چیف الیکشن کمشنر تعینات کیاگیا ۔ رجیم تبدیل ہونے تک ملک سابق وزیراعظم عمران خان کے تحت درست راہ پر گامزن تھا ۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ رجیم تبدیلی کی سازش سائفر کے زریعے منظرعام پر آئی ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے 123 اراکین قومی اسمبلی نے استعفیٰ دیاجس کی الیکشن کمیشن نے منظوری نہیں دی ۔چیف الیکشن کمشنر کا مرحلہ وار استعفوں کی منظوری مخصوص سیاسی جماعت کو فائدہ پہچانے پر مبنی ہے۔

تحریک انصاف نے دائر ریفرنس میں کہا کہ کسی کو خوش کرنے کیلئے چیف الیکشن کمشنر اپنے حلف کو بھول چکے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر کو فارن فنڈنگ کےحوالے سے 17جماعتوں کی اکٹھے اسکروٹنی کی درخواست کی ۔ چیف الیکشن کمشنر نے دیگر سیاسی جماعتوں کا کیس زیرالتوا رکھا اور پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دیا۔

ریفرنس میں یہ بھی اعتراض اٹھایا کہ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ کو ملتوی نہیں کیا ۔ الیکشن کمیشن نے سندھ اور پنجاب میں ضمنی انتخابات کو ملتوی کرنے کی درخواست کو قبول کرلیا ۔پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کے جانبدارانہ رویے پر کئی بار تشویش کا اظہار کیا۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ نوازشریف کے کہنے پر چیف الیکشن کمشنر نے من پسند 11 پی ٹی آئی کے ممبران کا استعفیٰ منظور کیا ۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے حلف کی خلاف وزری کی، عہدے پر رہنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔استدعا کی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے برطرف کیاجائے ۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری اور ملیکہ بخاری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ قاسم سوری نے پی ٹی آئی کے تمام استعفے منظور کیے ۔ الیکشن کمیشن نے ان منظور استعفوں پر کوئی عمل نہیں کیا ۔ کسی ادارے نے بھی ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے اقدامات نہیں کیے ۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک سازش تھی ۔

واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ آئینی عہدہ ہے اور اُنھیں ہٹانے کا طریقہ کار آئین کے تحت وہی ہے جو کسی جج کو ہٹانے کے لیے ہے اور اس کی منظوری صرف سپریم جوڈیشل کونسل دے سکتی ہے