دنیا میں 34 کروڑ افراد خوراک کی شدید کمی کا شکار

Spread the love

عالمی سطح پر 2019 سے اب تک خوراک کی شدید کمی کے شکار افراد کی تعداد 13 کروڑ50 لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے 34 کروڑ تک پہنچ گئی ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوام متحدہ کے دیگر 4اداروں کی طرف سے عالمی بھوک پر جاری کی گئی۔ نئی رپورٹ میں بتایا گیا 2022کے آغاز میں27کروڑ 60لاکھ افراد بھوک کا شکار تھے جس میں 24فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ کورونا وائرس کی وبا سے قبل 2020کے آغاز میں 13کروڑ 50لاکھ بھوک کا شکار تھے۔

رپورٹ کے مطابق 5 سال سے کم عمر ساڑھے 4 کروڑ بچے کم خوراک  کی سب سے خطرناک قسم کا سامنا کررہے ہیں ۔ ان بچوں کی موت کا خطرہ 12 گنا زیادہ بڑھ گیا ۔دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر 14 کروڑ 90 لاکھ کی جسمانی نشوونما ضروری غذائیت کی کمی کے باعث رُک چکی ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے بتایا کہ روس پر یوکرین کے حملے کے بعد ایندھن، خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے باعث بھوک سے متاثر افراد میں اگلے سال تک مزید اضافے کا خدشہ ہے۔دنیا میں 2030تک خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد 67 کرو ڑکے قریب ہوسکتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورتحال سے عالمی سطح پر عدم استحکام، قحط سالی اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ تباہی سے بچنے کے لیے ہمیں آج ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکوں کو اپنی زرعی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی جس سے قحط سالی کو روکنا ممکن ہے ۔ ڈیوڈ بیسلے نے یوکرین سے گندم اور اناج کو عالمی منڈیوں میں دوبارہ داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے سیاسی حل پر زور دیا۔ انہوں نے انسانی ہمدردی کے گروپوں سے مطالبہ کیاکہ بڑھتی ہوئی بھوک کو روکنے کے لیے نئی فنڈنگ کی ضرورت ہے ۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ ی عالمی سطح پر خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے ترقی پزیر ممالک پر براہ راست اثرات مرتب کیے ہیں ۔ جس کے باعث مارچ سےاب تک اندازاً7کروڑ 10لاکھ افراد انتہائی غربت میں جا چکے ہیں۔

رپورٹ میں بتایاکہ ترقی پذیر ممالک، مالیاتی ذخائر اور خود مختار قرضوں کی بلند سطح کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی شرح سود سے دوچار ہیں ۔ ترقی پزیر ممالک کو اس وقت ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جنہیں عالمی برادری کی فوری توجہ کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔

عالمی بینک کے مطابق صرف کورونا وائرس کی وبا نے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کو 50 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے ۔ جو ان کی آمدنی کے ڈھائی گنا سے زیادہ کے برابر ہے۔

سری لنکا ، آرمینیا،ازبکستان، برکینا فاسو، گھانا، کینیا، روانڈا ، سوڈان اور ہیٹی غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک ہیں ۔ ایتھوپیا، مالی، نائیجیریا، سیرا لیون، تنزانیہ اور یمن میں غربت کی انتہائی نچلی سطح کے افراد کو شدید متاثر کر سکتے ہیں ۔ البانیہ، کرغز جمہوریہ، مالدووا، منگولیا اور تاجکستان میں اس کے اثرات سب سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی افراط زر کے باعث شرح سود میں اضافہ ہوا ہے ۔ جس کے باعث کساد بازاری سےغربت میں مزید اضافے کا خطرہ ہے جو اس بحران کو مزید بڑھا دے گا ۔ دنیا بھر میں غربت کو مزید اضافہ کرے گا۔ یو این ڈی پی کے ایڈمنسٹریٹر ایچم سٹرینر نے کہا کہ قیمتوں میں بے پناہ اضافے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے لوگ جو کھانے پینے کی اشیا خرید سکتے تھے آج وہ خوراک قابل حصول نہیں ہے۔ قیمتوں میں اضافے اور دیگر بحران لاکھوں لوگوں کو غربت اور یہاں تک کہ فاقہ کشی میں دھکیل رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی معاشرتی بدامنی کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے لہذا اس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت ہے