نیویارک میں فائرنگ،10 افراد ہلاک

Spread the love

امریکی ریاست نیویارک کے دوسرے بڑے شہر بفلو کی سپرمارکیٹ میں سفید فام شخص کی فائرنگ میں کم از کم دس افراد مارے گئے ہیں۔ امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے اسے ‘‘نفرت آمیز جرم’’ اور ’نسلی تعصب کی بنیاد پر شدت پسندی‘ کا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

حکام کے مطابق سفید فام مسلح شخص جس نے حملے کے دوران فوجی طرز کا لباس پہنا ہوا تھا ، اٹھارہ سالہ سفید فام شخص بھاری اسلحے کے ساتھ سپر مارکیٹ میں داخل ہوا اور اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ حملہ آور اس شوٹنگ کے مناظر انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کر رہا تھا۔ پولیس نے مزید بتایا کہ مسلح شخص نے سپر سٹور کے باہر چار افراد کو گولی ماری، تین افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے۔ حملہ آور نے روکنے کی کوشش پر شاپنگ مال کے محافظ کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔

پولیس نے واقعے کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم نیویارک کے علاقے کونلکن کا رہائشی ہے۔ نوجوان حملہ آور بروم کمیونیٹی کالج کا طالب علم ہے۔

نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچل نے کہا ہے کہ ایک سفید فام جس نے معصوم کمیونٹی کے خلاف جرم کا اتکاب کیا ۔ اپنی بقیہ زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارے گا۔

سٹریمنگ پلیٹ فارم ٹوئچ نے کہا ہے کہ اس نے فائرنگ شروع ہونے کے دو منٹ بعد مسلح شخص کی ٹرانسمیشن کو بند کر دیا تھا۔

بفلیو کے میئر بائلن براؤن کا کہنا ہے کہ یہ ایک دردناک دن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جس درد سے متاثرین کے خاندان گزرے اور ہم محسوس کر رہے ہیں اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

پولیس کے مطابق حملہ آور نے رائفل قانونی طور پر خریدی تھی تاہم اس میں جو میگزین استعمال ہوا وہ نیویارک میں فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
12 اپریل کو نیو یارک کے بروکلین سب وے سٹیشن پر فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 13 افراد زخمی ہوئے تھے ۔

نیویارک کی ڈسٹرکٹ عدالت نے ملزم فرینک جیمز پر نقل و حمل کے نظام پر دہشت گردا حملوں اور دیگر پرتشدد واقعات کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔

امریکہ میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات میں ہر سال تقریباً 40 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جن میں خودکشیاں بھی شامل ہیں۔

صدر جو بائیڈن نے کہا کہ تفتیش کار ابھی فائرنگ کے محرکات پر غور کر رہے ہیں لیکن ’’ہمیں سچائی بیان کرنے کے لیے واضح طور پر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں: نسلی تعصب کی بنیاد پر کیا گیا نفرت آمیز جرم اس قوم کی ساخت کے لیے سخت ناگوار ہے۔‘‘

دوسری جانب گذشتہ ہفتے امریکی ریاست کیلی فورنیا کی وفاقی عدالت نے ریاست کی طرف سے خودکار آتشیں اسلحہ خریدنے کی عمر کی اکیس سال کی مقرر کردہ حد ختم کردی تھی ۔ عدالتی فیصلے میں عمر کی حد کو امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیا، جوسب کو نجی بندوق کی ملکیت کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔

2019میں ریاست کیلی فورنیا میں آتشیں اسلحہ خریدنے کی عمر کی حد اٹھارہ سے بڑھاکر اکیس کی گئی تھی۔ اور اب 100 صفحات پر مشتمل فیصلے میں امریکی جنگوں میں لڑنے والے کم عمر نوجوانوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی ججوں کا کہنا تھا کہ ان کی بہادری کے بغیر امریکہ آج قائم نہ ہوتا، ان نوجوانوں کی قربانی کو ہمارا آئین آج بھی تحفظ دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اٹھارہ سال کے نوجوانوں کو ہتھیار رکھنے کا پورا حق ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اکیس سال سے کم عمر وہ نوجوان جو فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کام نہیں کرتے انہیں رائفلیں یا شاٹ گن خریدنے کے لیے شکار کا لائسنس بنانا پڑے گا۔

ایک جانب جہاں یہ پابندی اٹھائی جا رہی ہے تو وہیں امریکہ میں بندوقوں سے ہونے والی اموات نے کار حادثات میں ہونے والی اموات کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔ امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے اعدادوشمار کے مطابق دو ہزار بیس میں مجموعی طور پر 4 ہزار 300سے زیادہ نوجوان اور نوعمر امریکی آتشیں اسلحے سے نکلی گولیوں کا نشانہ بنے۔

نیو انگلینڈ جرنل میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق گذشتہ سالوں میں نوجوان امریکیوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ کار حادثات تھی جبکہ بندوق سے ہونے والی اموات دوسرے نمبر پر تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کاروں کی اموات میں کمی آئی ہے اور 2020 میں 19 سال سے کم عمر کے تقریباً 3,900 امریکی ہی کار حادثات میں ہلاک ہوئے، جس کے مقابلے گن وائلنس سے ہونے والی اموات پہلے نمر پر آگئی ہیں۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک سے 19 سال کی عمر کے امریکیوں میں بندوق سے ہونے والی اموات میں اضافہ ملک بھر میں آتشیں ہتھیاروں سے ہونے والی ہلاکتوں کا مجموعی طور پر 33.4 فیصد حصہ بنتا ہے۔ نسلی آبادی کے لحاظ سے بھی اموات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اس ضمن میں سیاہ فام امریکیوں میں بندوقوں سے اموات سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ بڑھی ہیں۔

اسلحے اور اس سے بڑھتی اموات کا معاملہ وقت کے ساتھ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے لیکن امریکہ میں اسلحے کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ امریکی کانگریس اب تک ہتھیاروں کو محدود کرنے سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھا سکے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی الیکشن کیمپین میں گن وائلنس روکنے کے لیے مضبوط قوانین بنانا انکے مینڈیٹ میں شامل رہا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انکی توجہ بھی دوسرے مسائل کی جانب زیادہ مرکوز رہی، گزشتہ سال اپریل میں صدر بائیڈن نے شدید دباو کے بعد گن وائلنس روکنے کے لیے انتظامی اقدامات کا اعلان بھی کیا لیکن ابھی تک کسی بھی بل پر عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا ہے۔ اور اس حوالے سے کئی بل امریکی کانگریس میں سالوں سے منظور ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ جبکہ بڑھتے گن وائلنس کی وجہ سے امریکی صدر کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔