نائیجیریا میں تاوان کی ادائیگی غیرقانونی قرار

Spread the love

نائیجیرین حکومت  نے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے بڑا قدم اٹھا لیا۔ ملک میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی مسائل کے خلاف لڑائی کے ایک حصے کے طور پر مسلح افراد کو  تاوان کی ادائیگی پر پابندی لگا دی۔سینیٹ نے دہشت گردی ایکٹ منظور کیا جس کے تحت اغوا کاروں کو تاوان کی ادائیگی کو غیر قانونی قرار دیا

گیا ہے۔اس کی سزا بھی موت ہو گیا ہے۔

عالمی خبررساں ادارے  کے مطابق نائیجیریا کی سینیٹ سے منظور ہونے والے بل کے مطابق  اغوا کاروں کی جانب سے رہائی کے بدلے تاوان ادائیگی پر سزا ہو گی۔ تاوان کی ادائیگی کرنے والے کو کم از کم 15 سال قید کی سزا دی جائے گی۔ اگر کسی اغوا کیے گئے شخص کی موت واقع ہو جائے تو اس جرم کی سزا  موت ہو گی۔

سینیٹ کی عدلیہ، انسانی حقوق اور قانونی کمیٹی کے چیئرمین اوپییمی بامیڈیلےنے بتایا کہ یہ پابندی سیکیورٹی کے مسائل سے نمٹنے کا حصہ ہے۔ تاوان کی ادائیگی کو طویل قید کی سزا دینے سےنائیجیریا میں اغوا اور اغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی، نائیجیریا کے دہشت گردی کے قانون میں ترمیم  کرنا ضروری تھا۔

نائیجیریا   کی شمال مشرقی اور شمال وسطی ریاستوں میں  مسلح گروہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اغوا برائے تاوان کے ذریعے دہشت پھیلا رہے ہیں۔ وہ  طلباء، دیہاتیوں اور ہائی ویز پر گاڑی چلانے والوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن کمزور قوانین اور کرپشن کی وجہ سے سزاوں سے بچنے میں کامیاب رہتے رہے۔

صدر محمدو بوہاری کی حکومت نے اس ترمیم سے پہلے رواں سال  ہی مسلح اغوا کرنے والے گروہوں کی درجہ بندی کر کے انہیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔  لیکن اس سے اغوا کی وارداتیں کم نہیں ہوئیں۔ان میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا۔

اگرچہ نائجیریا کی کئی ریاستوں میں اغوا برائے تاوان کی سزا موت ہے، لیکن ان جرائم کو روکا نہیں جا سکتا۔ ملک میں پادریوں، غیر ملکی کارکنوں، کاروباری افراد، طلباء اور سیاستدانوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ابھی حال ہی میں ریاست کندوا میں ایک ٹرین اسٹیشن پر مسلح افراد  نے  بم حملے میں 150 سے زیادہ افراد کو اغوا کر لیا تھا۔

 نائیجیریا میں دسمبر 2020 اور مارچ 2021 کے درمیان چار ماہ کے عرصے میں، ڈاکوؤں کے گروہوں  نے کم از کم پانچ الگ الگ واقعات میں شمالی نائیجیریا میں  760 سے زیادہ طلباء کو اسکولوں  سے اغوا کیا۔

خبرایجنسی کے مطابق سات سال قبل نائیجریا کی ریاست بورنو سے چیبوک سیکنڈری سکول میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام کی جانب سے 276 طالبات کو اغوا کیے جانے کے بعد سے مسلح حملہ آوروں نے طلبہ کو اغوا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔اسکولوں پر سب سے سنگین حملہ اپریل 2014 میں کیا گیا تھا جب شمال مشرقی ریاست بورنو کے گورنمنٹ سیکنڈری سکول میں 270 سے زائد طلبہ کو ان کے ہاسٹل سے اغوا کیا گیا تھا۔

 دسمبر 2020 میں شمال مغربی  قصبے سے300 سے زائد لڑکوں  کو اغوا کیا گیا۔ جنھیں چھ دن بعد رہا کردیا گیا تھالیکن حکومت  کا کہنا تھا کہ لڑکوں کی رہائی کے لیے کوئی تاوان ادا  نہیں کیا گیا۔رپورٹس کے مطابق  جون 2011 سے مارچ 2020 کے درمیان متاثرہ خاندانوں اور حکومت کی جانب سے  اغوا کاروں کو کم از کم 18اعشاریہ34 ملین ڈالر تاوان کے طور پر ادا کیے گئے۔  اب دہشت دگردی قوانین میں اس نئی ترمیم کے بعد حکومت کی جانب سے اغواکے واقعات میں کمی کی امید کی جارہی ہے۔