زیادتی کیس میں ملزم کی ضمانت،ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم

مونال ریسٹورنٹ کیس
Spread the love

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے خاتون سے ذیادتی کرنے والے ملزم فرحان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی ۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ تفتیش کے لئے کسی خاتون افسر کو تفتیشی ٹیم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ لڑکی کے مطابق تفتیشی افسر بھی اسے رات کو بلا کر حراساں کرتا رہا۔

سی پی او راولپنڈی نے تفتیشی افسر کی جانب سے شواہد ضائع کرنے کا اعتراف کر لیا ۔ سی پی او راولپنڈی نے عدالت کو بتایا کہ ازسرنو تحقیقات میں لڑکی کے الزامات درست ثابت ہوئے ہیں ۔ تفتشی افسر شہزاد انور کی تنزلی ہو گئی ۔ سزا میں اضافے کی سفارش بھی کر دی ہے ۔ ازسرنو تحقیقات کے بعد چالان جمع کروا دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ملزم اور تفتیشی افسر نے مل کر تمام شواہد ضائع کر دیئے ۔ متاثرہ لڑکی کا پندرہ تک میڈیکل ہوا نہ ہی بیان ریکارڈ کیا گیا ۔ ہائیکورٹ کا تمام حقائق کی موجودگی میں ملزم کو ضمانت دینا حیران کن ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ تفتیش کے لئے کسی خاتون افسر کو ٹیم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ لڑکی کے مطابق تفتیشی افسر بھی اسے رات کو بلا کر حراساں کرتا رہا۔

ملزم کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ خاتون خود لڑکے کے ساتھ ہوٹل میں گئی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہا کہ ہوٹل میں جانے کا کیا مطلب ہے کہ ذیادتی کرکے تصاویر بنائی جائیں؟ ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ لڑکی کا ملتان میں نکاح ہو چکا ہے ۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا شادی شدہ ہونا زیادتی کا لائسنس دیتا ہے؟ جو پولیس پر اثرانداز ہو سکتا ہے وہ متاثرہ لڑکی پر کیسے نہیں ہوگا؟

واضح رہے کہ ملزم فرحان پر تھانہ صادق آباد میں نورین نامی لڑکی نے ذیادتی کا مقدمہ درج کروا رکھا ہے