اومی کرون، بیماری یا نفسیاتی حربہ

Spread the love

جنوبی افریقہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے خلاف کیا گیا بے بنیاد پراپیگنڈا دوسرے ملکوں کے ڈاکٹروں کو اومی  کرون یا کسی نئی قسم کے  بارے میں معلومات چھپانے کی ترغیب دینے کا باعث بنے گا،،،

Omicron variant
Spread the love


جنوبی افریقہ سے سامنے آنے والے کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون نے دنیا بھر میں پھر ہلچل مچا دی ہے ، اومیکرون کے سامنے آنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر دنیا نے جنوبی افریقہ سمیت چھ افریقی ملکوں سے فلائیٹس بند کرنے کا اعلان کر دیا،،،، جنوبی افریقہ میں 183 فعال 990 مشتبہ کیسز، گھانا سے 33 فعال، برطانیہ سے 32 فعال 200 مشتبہ، بوٹسوانا 19 فعال، نیدرلینڈز 32 فعال، پرتگال 13 فعال، جرمنی سے 10 فعال 15 مشتبہ کیسز، آسٹریلیا سے 8 فعال 2 مشتبہ، ہانگ کانگ اور کینیڈا 7،7 فعال کیسز سامنے آئے ہیں۔ ڈنمارک سے 6 فعال اور 11 مشتبہ کسیز، اٹلی، آسٹریا اور سوئیڈن سے 4،4 فعال کیسز جبکہ جنوبی کوریا سے 3 فعال اور ایک اومی کرون کا مشتبہ کیس اب تک سامنے آیا ہے،،، سوئیٹزرلینڈ اور نائیجیریا سے بھی اب تک 3، 3 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں،، اسرائیل سے اومی کرون ویرئینٹ کے 2 فعال کیس اور 17 مشتبہ کیس سامنے آئے ہیں، برازیل، اسپین اور جاپان سے نئے ویرئینٹ کے 2،2 کیس رپورٹ ہوئے ہیں، ناروے سے 2 فعال اور 2 ہی مشتبہ کیس اب تک سامنے آ چکے ہیں، امریکہ، سعودی عرب، آئرلینڈ سے ایک ایک فعال کیس سامنے آ چکا ہے، جمہوریہ چیک سے ایک، متحدہ عرب امارات سے ایک اور بحر ہند میں موجود جزیرے ری یونین فرانس سے بھی ایک فعال کیس سامنے آیا ہے،، فرانس اور فن لینڈ سے بالترتیب 8 اور 2 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں،، یوں دنیا بھر میں اس وقت اومی کرون وائرس کے کل 373 فعال اور 1,256 مشتبہ کیسز ہیں۔ اومی کرون وائرس کی نشاندہی ہوتے ہی جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، جنوبی افریقہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار کمیونیک ایبل ڈیزیزز کے ڈاکٹر مائیکل گروم کا کہنا ہے کہ دو ہفتے قبل ان کے ملک سے کرونا کے محض 300 مریض یومیہ رپورٹ ہو رہے تھے، یہ تعداد پچھلے ہفتے اومی کرون وائرس سامنے آنے کے بعد بڑھ کر 1000 مریض یومیہ تک جا پہنچی ہے، ان کیسز میں سے 74 فیصد مریضوں میں اومی کرون وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ جنوبی افریقی عوام پابندیوں کے باعث سخت غصے اور تناؤ کی کیفیت میں ہے اور اومی کرون وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹروں کو غصہ بھری ای میلز موصول ہو رہی ہیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے خلاف کیا گیا بے بنیاد پراپیگنڈا دوسرے ملکوں کے ڈاکٹروں کو اومی  کرون یا کسی نئی قسم کے  بارے میں معلومات چھپانے کی ترغیب دینے کا باعث بنے گا،،، جنوبی افریقی ڈاکٹروں کے مطابق ابھی تک سامنے آنے والی معلومات سے اندازہ ہوا ہے کہ اومی کرون وائرس کی علامات معتدل ہیں اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے ہیجان کی نہیں،، امریکہ کے ادارہ برائے صحت عامہ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر فرانسس کولن کے مطابق ابتدائی معلومات کے مطابق وائرس کا حملہ زیادہ تر جوان افراد پر ہوتا ہے،، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے جنوبی افریقہ اوراس کے ہمسایہ ممالک پر سفری پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ انتونیو گوتریس نے کہا کہ اومی کرون کے باعث خاص ممالک پر سفری پابندیاں غیر منصفانہ ہیں، وائرس سرحد یں نہیں دیکھتا، سفری پابندیاں غیر مؤثر ثابت ہوں گی۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ سفری پابندیوں کی بجائے مسافروں کی کورونا ٹیسٹنگ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ دنیا بھر کے ملک اومی کرون کی حفاظت کے پیش نظر بوسٹر ڈوز یعنی اضافی خوراک لگوانے کا اعلان کر چکے ہیں،، حد یہ ہے کہ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ویکسین بنانے والی کمپنیاں کہہ چکی ہیں کہ ان کی ویکسین اومی کرون کے خلاف مؤثر ہی نہیں۔ جب ویکسین مؤثر نہیں تو اضافی خوراک لگانے کا اعلان بغیر کسی جامع تحقیق کے سمجھ سے بالاتر ہے۔

اومی کرون نے عالمی سفر خلل ڈالا، دنیا کے 70 ملک افریقی ملکوں پر پابندیاں لگا چکے ہیں، ان پابندیوں نے جہاں خوف کی ایک فضا تیار کی وہیں ان ملکوں کو سخت مالی نقصان بھی پہنچایا،،،، پہلے سے لڑکھڑاتی ہوئی افریقی ائیر لائنز جو کرونا سے لڑنے کے بعد کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھیں کو اب ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے،،، سیاحت کی صنعت جو دو سال بند رہنے کے بعد آہستہ آہستہ کھلنے لگی تھی اسے بھی ان پابندیوں سے سخت دھچکا لگے گا، اس کے علاوہ درآمدات، برآمدات اور دیگر تجارتی و معاشی نقصانات الگ ہیں،، مالیاتی منڈیوں میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون جرمنی، اٹلی ، برطانیہ ، امریکا ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب سمیت بیس ملکوں میں پہنچ چکی ہے ،، اومی کرون کا پہلا کیس سامنے آنے کا اثر امریکی اسٹاک مارکیٹ پر بھی ہوا جہاں مندی کا رحجان ہے،، ڈاؤ جونز میں چار سو ساٹھ پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ایس اینڈ پی 500 شیئرزایک اعشاریہ دو فیصد ، نیسڈیک کمپوزٹ انڈیکس ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تک گر گیا،، اومی کرون کے سبب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری ہے، امریکی خام تیل کی قیمتوں میں فی بیرل 61 سینٹ کمی ہوئی جس کے بعد قیمت پینسٹھ اعشاریہ ستاون ڈالر فی بیرل ہو گئی،، برینٹ کروڈ آئل کی قیمت بھی اڑسٹھ اعشاریہ ستاسی ڈالر فی بیرل ہو گئی۔

جاپان نے باہر سے آنے والے افراد پر پابندی لگاتے ہوئے اپنے ہاں موجود تمام بین الاقوامی ائیر لائنز کو دسمبر کے آخر تک فلائیٹس بکنگ سے بھی منع کر دیا ہے،،، یورپ کی 67 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اس کے باوجود اومی کرون کا سب سے زیادہ خوف اس معاشرے میں دیکھا جا رہا ہے،، آسٹریا نے کل شہریوں کی ویکسین لازمی قرار دے دی ہے، یونان نے 60 سال سے اوپر کے غیر ویکسینیٹڈ شہریوں پر 100 یورو ماہانہ جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے،، سلواکیہ 60 سال سے اوپر کے افراد کی حوصلہ افزائی کے لئے ویکسین لگوانے پر 500 یورو انعام کا اعلان کرنے پر غور کر رہا ہے،،، جب کہ جرمنی کے ممکنہ نئے حکمران اولف شااولز کا کہنا ہے کہ اگر ویکسین ہر شخص کے لئے لازمی قرار دئیے جانے کی کوئی بھی تحریک پیش کی گئی تو وہ اس کی حمایت کریں گے،،

لیکن تازہ تحقیق کے مطابق اومی کرون جنوبی افریقا میں سامنے آنے سے قبل نیدرلینڈز میں موجود تھا۔ نیدر لینڈز میں اومی کرون کی شناخت 19 اور 23 نومبر کے درمیان  لیے گئے دو ٹیسٹ نمونوں میں کی گئی جو کہ جنوبی افریقا میں اس ویرینٹ کے سامنے  آنے سے پہلے کی بات ہے۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ سے 20 نومبر کو اومی کرون وائرس کے 9 کیس سامنے آنے کی اطلاعات ہیں جو ایک تقریب میں شامل افراد سے ایک دوسرے کو منتقل ہوا تھآ،،، ان کیسز میں خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جنوبی افریقہ سے نہیں آیا نہ ہی جنوبی افریقہ سے آنے والے کسی شخص سے ملا تھا۔ اس بات کا اقرار اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجیون نے پارلیمنٹ کے سامنے خطاب کے دوران کیا،،

سوال یہ ہے کہ ابھی اس وائرس کے بارے میں حتمی معلومات سامنے نہیں آئیں پھر بھی عالمی دنیا ہیجان انگیز خوف میں کیوں مبتلا ہو گئی ہے؟؟؟ کہا جا رہا ہے کہ اس وائرس کے خلاف ویکسینز بھی مؤثر نہیں ہیں۔ موڈرینا نامی کمپنی نے اومی کرون کے لئے نئی ویکسین بنانے کا اعلان بھی کر دیا ہے،،، جو مارچ 2022 تک تیار ہو پائے گی تو کیا امریکہ اور یورپ نے ویکسین کے نام پر دنیا کو بےوقوف بنایا تھا؟؟ دنیا بھر میں یہ وائرس خلائی سفر کرنے والوں سے پھیلا اور خلائی سفر کے لئے آپکا ویکسینیٹڈ ہونا ضروری ہے تو کیا ویکسین کی مخالفت کرنے والوں کا بیانیہ صحیح تھا کہ وبا کے دوران بڑے پیمانے پر ویکسین سے وائرس کی نئی صورت سامنے آ سکتی ہے جس کے خلاف ویکسین کارآمد نہ ہو گی؟ دنیا نئے وائرس کی دریافت کو جنوبی افریقہ کے ڈاکٹروں کی عظمت قرار دینے کے بجائے جنوبی افریقہ کو بدنام کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے؟ کیا یہ نسل پرستانہ کردار ہے یا کوئی سیاسی وجہ ہے یا پھر میڈیا کا غلط کردار؟؟ جن ملکوں پر پابندیاں لگی ہیں وہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شامل ہیں تو اگر خدانخواستہ وائرس بے قابو ہو گیا تو کیا بین الاقوامی دنیا پابندی زدہ عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دے گی؟؟؟ اگر وائرس جنوبی افریقہ سے پہلے یورپ میں موجود تھا تو یورپ نے کیوں چھپایا؟؟؟ یہ یورپی ڈاکٹروں کی غفلت تھی یا حکومتی نااہلی؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جنوبی افریقہ اور دیگر غریب ملکوں کو دھونس دباؤ اور زور زبردستی کے تحت ویکسین خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تاکہ یورپی سرمایہ دار اپنی جیبیں بھر سکیں،،، نئے ویرئینٹ کے سامنے آنے کے بعد چین اور روس کیوں خاموش ہیں، ان کی ویکسین بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے،، جنوبی افریقہ نے اسرائیل میں ہونے والے خوبصورتی کے بین الاقوامی مقابلے کی مخالفت کی تھی جس کے کچھ دن بعد ہمیں اومی کرون کی آمد کا مژدہ سنایا گیا،،، ان سوالات کے جوابات تو شائد نہ مل سکیں لیکن بظاہر نظر آتا ہے کہ کہیں نہ کہیں فوائد سمیٹنے کے لئے خوف کی فضا تیار کی گئی ہے جس کا تعلق بادی النظر میں سرمائے سے ہے نہ کہ انسانی صحت سے ورنہ ان ملکوں کی آبادی اتنی تو نہیں کہ انہیں مفت ویکسین نہ لگائی جا سکے۔۔۔ دنیا کو کرونا کے خلاف لڑنے کے لئے سیاست سے زیادہ انسانیت کی ہمدردی کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ میں امیر ملکوں کا دوران وبا کردار ہمیشہ کے لئے داغدار ہو جائے گا۔