شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام کب عمل میں آیا؟ مقاصد کیا ہیں؟

Spread the love

شنگھائی تنظیم 1996 میں چین، روس، کرغستان اور تاجکستان کی شرکت سے "شنگھائی فائیو” کے نام سے وجود میں آئی۔اور اسے  شنگھائی "فائیو” کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے شنگھائی تعاون تنظیم "ایس سی او” رکھ دیا گیا۔ اس تنظیم کے مقاصد میں خطے میں باہمی تعاون کی فضا قائم کرنا شامل تھا۔

پاکستان اور بھارت 2005 سے ایس سی او کے آبزرور کی حیثیت سے شامل ہوئے جبکہ دونوں ملکوں کو مستقل رکنیت 2017ء میں دی گئی تھی۔دونوں کی اس فورم میں شمولیت کے بعد رکن ملکوں کی تعداد 8 ہو گئی۔ستمبر2022 میں  سمرقند میں ہونے والی ایس سی او سربراہی کانفرنس میں ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دی گئی جس کے بعد تنظیم کے مستقل رکن ممالک کی تعداد 9 ہوگئی۔

2001 میں جب ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ دیا گیا کیونکہ اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔

اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا ، بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔

شنگھائی کوآرڈینیشن آرگنائزیشن کھلے پن کے اصول پر قائم ہے یعنی اس تنظیم کے دروازے خطے کے تمام ملکوں کیلئے اس وقت تک کھلے ہیں جب تک یہ ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر اور شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے اصولوں کا خیرمقدم کرتے یا اسے تسلیم کرتے ہیں۔

اس فورم کے قیام کا مقصد جنوبی اور وسطی ایشیائی ملکوں کےدرمیان معاشی ترقی، علاقائی تعاون اور تجارت میں اضافے کے علاوہ دونوں خطوں میں امن و استحکام اور سلامتی کو فروغ دینا شامل ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان، بیلا روس اور منگولیا آبزرور رکن ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال، ترکی، آزربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں ۔ مالدیپ، میانمار، متحدہ عرب امارات اور کویت کو ڈائیلاگ پارٹنرکا درجہ حاصل ہے۔ ترکیہ اور بیلاروس سمیت کئی دیگر ممالک اس تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔

ایس سی او چارٹر کے آرٹیکل ایک کے مطابق اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان مضبوط رشتے قائم کرنا ہے، جس میں باہمی اعتماد، دوستی اور اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔

چارٹر کے مطابق اچھے تعلقات ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے پر مبنی ہیں تو دوسری طرف اس کا ایک مقصد تجارت اور معیشت کے ذریعے موثر علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان اس تنظیم کا اہم رکن ہے۔ کیونکہ پاک چین اکنامک کاریڈور کادائرہ کار نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ اسے یورپ تک پھیلا یا جا سکتا ہےجس سےنہ صرف پاکستان بلکہ  خطے میں  خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔