ترکیہ کی آزادی کے 100 سال ، کیا لوزان معاہدے کا بھی خاتمہ ہو گا ؟

Spread the love

2023ء میں ترکیہ کی آزادی کے 100 سال مکمل ہونے کے ساتھ ترکیہ کے ’’معاہدہ لوزان‘‘ کی مدت ختم ہونے کی دنیا بھر میں گونج سنائی دے رہی ہے۔

بہت سے حلقوں میں یہ موضوع زیربحث ہے کہ جولائی 2023 میں ترکیہ معاہدہ لوزان کے تحت عائد پابندیوں سے آزاد ہونے کے بعد پھر سے دنیا کا طاقتور ترین ملک بن سکتا ہے جو پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد عائد کی گئی تھیں۔ یہ موضوع بھی زیر بحث ہےکہ معاہدہ سیورے یا لوزان ایک معینہ مدت کا معاہدہ ہے جس کے اختتام کی کوئی تاریخ نہیں۔

تاریخ کے جھرکوں میں دیکھا جائے تو 1517ء سے 1924ء تک خلافت عثمانیہ کے دور میں 3 براعظموں یعنی جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ پر سلطنت عثمانیہ کا راج تھا۔

ارطغرل غازی اور ان کے بیٹے عثمان نے مسلمانوں کو شاندار اور ناقابل یقین فتوحات دلاکر پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا جس کے بعد 600 سال سے زائد عرصے تک 3 براعظموں پر سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی رہی۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد24جولائی 1923 ء میں ایک امن معاہدے کے نام پر جنگ عظیم اول کے فاتح اتحادیوں اور ترکیہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جو ترکیہ اور برطانیہ، فرانس، اٹلی، یونان اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ کیا گیا تھا جس میں 1920 کے سیوریس معاہدے کو ختم کر کے نیا معاہدہ کیا گیا تھا۔

معاہدے کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی ۔ اس معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکیہ کی سرحدیں متعین کی گئیں۔ قبرص، عراق اور شام پر ترکیہ کا دعویٰ ختم کرکے سرحدوں کا تعین کیا گیا اوراس معاہدے کے تحت جمہوریہ ترکیہ کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ سعودی عرب سمیت 40 سے زیادہ مسلم ممالک خلافت عثمانیہ سے نکل کر آزاد ممالک کے طور پر وجود میں آئے۔

خلاف عثمانیہ تحلیل ہونے کے باعث  سلطان کو ان کے خاندان سمیت ترکی سے جلاوطن کر دیا گیا حتٰی کہ سلطان کی ذاتی املاک بھی ضبط کرلی گئیں۔ ترکی کو ایک سیکولر اسٹیٹ قرار دیا گیا اور جمہوریہ ترکی کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے کی رو سے ترکی نے تینوں براعظموں میں موجود خلافت کے اثاثوں اور املاک سے بھی دستبرداری اختیار کرلی۔

اس معاہدے کے تحت ترکیہ سے تیل نکالنے کی اجازت سلب کرلی گئی، آبنائے باسفورس (بحیرہ مردار) کو بین الاقوامی راستہ بنادیا گیا جس کی رو سے ترکی اپنے سمندری راستے سے گزرنے والے غیر ملکی بحری جہازوں سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکتا، ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے مصطفی کمال اتاترک نے سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی اور ترکی کو نئے سرے سے منظم کرکے انقرہ کو جدید ترکی کا دارالحکومت بنایا۔

ترکیہ نے لوزان کے معاہدے تحت عائد پابندیوں کے باوجود ترقی کا سفر جاری رکھا ۔ آج ترک صدر طیب اردوان کی حکومت نے آئی ایم ایف کا تمام قرضہ ختم کرکے ترکی کو آئی ایم ایف کے چنگل سے باہر نکال لیا ہے۔ ترکی یورپی یونین کسٹم کا ممبر ملک ہے جس کی وجہ سے ترکی کو یورپی یونین ممالک میں ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی سہولت حاصل ہے۔

ترکیہ میں آبنائے باسفورس پر قائم باسفورس پل ایشیاء کو یورپ سے ملاتا ہے۔ ترکی جی20 ممالک کا رکن اور دنیا کی 17 ویں ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ ترک فوج نیٹو کی دوسری بڑی آرمی ہے جبکہ ترکی دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے جہاں سالانہ 7 کروڑ سے زائد غیرملکی سیاح آتے ہیں۔

معاہدہ لوزان پر مغرب کاموقف ہے کہ یہ معاہدہ کمال اتاترک کے جمہوریہ ترکی اور مغربی طاقتوں کے مابین ہوا تھا جس کا سلطنت عثمانیہ سے کوئی تعلق نہیں اور معاہدہ لوزان کی میعاد 100سال نہیں بلکہ یہ غیرمیعادی معاہدہ ہے جس کی کوئی مدت مقرر نہیں۔

ارطغرل غازی اور دیرلس عثمان ڈرامہ کی مماثلت

دنیا کے مسلمان ملکوں میں ترکی کو سب سے الگ اور نمایاں مقام حاصل ہے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں ترکوں نے دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی کی اور اپنے زور بازو سے لازوال فتوحات حاصل کیں۔

ارطغرل غازی اور دیرلس عثمان دونوں ڈراموں میں پہلے ارطغرل اور پھر ان کے بیٹے عثمان کی فتوحات دیکھ کر مسلمانوں کا خون ایک بار پھر جوش مارتا ہے لیکن شائد بہت کم لوگ ہی جانتے ہونگے کہ یہ دونوں ڈرامے حقیقی کہانیوں پر مبنی ہیں۔

100سال پر محیط معاہدہ دراصل ترک عوام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کا ایک ایسا پھندا تھا جس نے ترکی کو ہاتھ پائوں باندھ کر چاروں شانے چت کردیا۔ایسا وقت بھی آیا کہ ترکی میں اسلام کا نام لینا بھی مشکل ہوگیا۔ اس شرمناک معاہدے میں ترکی کو معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے اپنی زمین سے تیل نہ نکالنے کا پابند کیا گیا۔ مغرب کی سازشیں یہیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ آبنائے باسفورس کو مفت عالمی گزر گاہ قرار دیدیا گیا جس کے ٹیکس سے ترکی کو بہت فائدہ ہوسکتا تھا۔

آبنائے باسفورس دنیا بھر میں تجارت کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس راستے سے روزانہ سیکڑوں بحری جہاز گزرتے ہیں لیکن لوزان معاہدے میں اسے بین الاقوامی گزرگاہ قرار دے دیا گیا تھا اور ترکی کو بحری جہازوں پر ٹیکس لگانے سے روک دیا گیا تھا۔

آبنائے باسفورس کی طرز کی ایک آبی گزرگاہ سوئز کینال کے نام سے مشہور ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔ اس سمندر پر قبضے کے لئے امریکا، برطانیہ اور اسرائیل مصر سے جنگ بھی کرچکے ہیں اور آج یہ سمندریومیہ 15 ملین امریکی ڈالر ٹیکس جمع کرتا ہے۔

عالمی ماہرین کے مطابق ترکیہ نے 100 سال تک اس ظالمانہ معاہدے پر عمل کیا لیکن 2023 میں معاہدے سے نکلنے کے بعد اپنی سرزمین سے تیل اور دیگر معدنیات نکالنے کے علاوہ آبنائے باسفورس پر ٹیکس لگاکر اپنی معیشت کو مضبوط بناسکتا ہے۔

ترکیہ کے صدر طیب اردگان بھی2023 کو اپنی قوم کیلئے بہت اہم قرار دے چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 600 سال تک دنیا پر حکمرانی کرنے والا ترکی آنے والے سال میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوپائے گا۔

2 thoughts on “ترکیہ کی آزادی کے 100 سال ، کیا لوزان معاہدے کا بھی خاتمہ ہو گا ؟

  1. … [Trackback]

    […] Find More to that Topic: daisurdu.com/2023/01/02/ترکیہ-کی-آزادی-کے-100-سال-،-کیا-لوزان-معاہد/ […]

  2. … [Trackback]

    […] Information on that Topic: daisurdu.com/2023/01/02/ترکیہ-کی-آزادی-کے-100-سال-،-کیا-لوزان-معاہد/ […]

Comments are closed.