اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ملتوی،امیداروں کے کروڑوں ڈوب گئے

Spread the love

الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول منسوخ کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے بلدیای انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لاکھوں روپے ڈوب گئے ۔امیداوروں کا موقف ہے کہ انہوں نے پینافلیکسز اور الیکشن کمپئن کی مد میں لاکھوں خرچ کر ڈالے ۔ الیکشن سے چار روز قبل انہیں ملتوی کرنا افسوسناک ہے۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے اسلام آبادہائیکورٹ کے حکم پر اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس سماعت کی ۔ ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون، سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف، پی ٹی آئی کی جانب سے  بابراعوان اور علی نوازاعوان جب کہ  جماعت اسلامی کی جانب سے میاں اسلم الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

حکومت کے وکیل اشتر اوصاف نے دلائل دیئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت کا مؤقف سننےکاکہا اور الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو سنے بغیر فیصلہ جاری کیا۔ ماضی میں بھی شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی الیکشن ملتوی کیے گئے ۔ الیکشن کمیشن کو آئین اورقانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن بڑی تعداد میں شہریوں کوان کے حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔

چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں 2 بار حلقہ بندیاں ہوچکی ہیں اور پنجاب میں بھی 2 بار حلقہ بندیاں ہوچکی، تیسری بار ہونے جارہی ہیں، حکومت کو پہلے خیال کیوں نہیں آیا کہ وقت پر یوسیزبڑھا لینی چاہئیں۔ اب جب شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے تو یوسیز بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ حکومت نے کمیشن کو ایک پیچیدہ صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 148 میں لکھا ہے کہ لوکل قانون کے مطابق الیکشن کروانے ہیں۔ اب وہ قانون ہی بدل دیا جائے تو پھر کیا کیا جائے۔

چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجہ نےریمارکس میں کہا کہ کوئی ایسی قانون سازی ہوکہ لوکل گورنمنٹ الیکشن اپنے وقت پرہوں، ہمیں صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میئرکا انتخاب ڈائریکٹ کردیا گیا ہے، ہمارے پاس تو ان کے کاغذات نامزدگی بھی نہیں، کیا پتا کل پھر یونین کونسل کی تعداد کم کردی جائے۔

چیف  الیکشن کمشنر نےمزید کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو لکھیں گے کہ بلدیاتی انتخابات بروقت مکمل ہونے چاہئیں، آئین میں بلدیاتی انتخابات کرانا لازم ہے، خدشہ ہے حکومت حلقہ بندی کے بعد دوبارہ یونین کونسلز میں ردوبدل نہ کردے، حکومت کہیں تو اس چیز کو روکے، حکومتیں ہر دوسرے دن الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیتی ہیں۔

تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نےاپنے دلائل میں کہا کہ شیڈول جاری ہوچکا ہے اب 31 دسمبر کو الیکشن کروانے ضروری ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخاب میں پہلے بھی 2 بار تاخیرہوچکی ہے۔ حکومت اس کیس میں ایک پارٹی ہے اور قانون کے حوالے سے 3 غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی آرڈرجاری نہیں کیا ۔عدالت نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق اختیارالیکشن کمیشن کو دیا ہے۔

بابر اعوان کےدلائل پر چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ ان دلائل کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہمارا فیصلہ کالعدم قراردیا ہے  اور ہائیکورٹ نے یونین کونسلزکی تعداد کا جائزہ لینے کا بھی کہا ہے۔

جماعت  اسلامی کے وکیل حسن جاوید نےمؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا اختیارمحدود نہیں کیا ۔ ہمارا موقف ہے ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تمام اتھارٹی الیکشن کمیشن کی ہے،انتخابات الیکشن کمیشن نے کروانے ہیں۔ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کم کردے گی، اگریہ اختیارانہیں دے دیا جاتا ہے توکبھی بھی الیکشن نہیں ہوسکیں گے۔