افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے 20 دسمبر کو خواتین طلبہ کا تعلیمی سلسلہ معطل کیا گیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پابندی کے حوالے سے منگل کو وزیر برائے اعلٰی تعلیم ندا محمد ندیم کی جانب سے دستخط شدہ ایک مراسلہ تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو بھیجا گیا۔
مراسلے میں کہا گیا تھا کہ "آپ سب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آئندہ اطلاع تک خواتین کی تعلیم معطل کرنے کے مذکورہ حکم پر فوری طور پر عمل درآمد کریں۔”
وزارت برائے اعلی تعلیم نے تمام سرکاری و نجی جامعات میں خواتین طلبہ کی تعلیم معطل کرنے کا حکم جاری کیا جس کے اگلے ہی روز خواتین پر اعلی تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔
افغانستان میں خواتین پر تعلیم کی پابندی کے باعث 110پاکستانی طالبات کا مسقتبل داو پر لگ گیا ہے۔ افغانستان کے چھ میڈیکل کالجز میں 99 پاکستانی طالبات زیر تعلیم ہیں ۔ کچھ میڈیکل طالبات کے فائنل ائیر کا امتحان چوبیس دسمبر سے شروع ہونا تھا۔پاکستانی طالبات نے حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل کر دی۔
افغانستان میں موجود پاکستانی میڈیکل طالبات کی گفتگو
طالبان کی اچانک تعلیم پر پابندیوں سے ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے#afghanistan @BBCYaldaHakim
2/2 pic.twitter.com/ECGov2Nxuv— Dais Urdu (@daisurdu1) December 23, 2022
جلال آباد میں پاکستانی طالبہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ پاکستانی میڈیکل طالبات کا کہنا تھا کہ طالبان کی اچانک تعلیم پر پابندیوں سے ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے۔ حکومت ہماری تعلیم مکمل کرنے کے لئے میڈیکل کالجز میں سیٹیں مختص کرے۔جلال آباد میڈیکل کالج میں ہمارے فائنل ائیر کے امتحان شروع ہونے والے تھے۔ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے میڈیکل کالجز میں سیٹیں مختص کرے۔
افغانستان میں موجود پاکستانی میڈیکل طالبات کی گفتگو
طالبان کی اچانک تعلیم پر پابندیوں سے ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے#afghanistan @BBCYaldaHakim
1/2 pic.twitter.com/Uzqa9YHHH5— Dais Urdu (@daisurdu1) December 23, 2022
فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی جانب لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی اور کالج و یونیورسٹیز بند کرنے کے فیصلے کیخلاف خواتین نے کابل میں احتجاج کیا۔
احتجاجی خواتین نے حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کو بنیادی حقوق قرار دیا اور اس کو بحال کرنے کا پُروز مطالبہ کیا۔
Afghan women take to the streets, protesting for their basic human rights despite the Taliban’s attempts to silence and intimidate them. They tell me they have nothing to lose pic.twitter.com/EXsrrQWOgv
— Yalda Hakim (@BBCYaldaHakim) December 22, 2022
خواتین کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے لڑکیوں کو تعلیمی اداروں سے نکالنے پر ہماری مدد کریں اور حقوق دلوانے میں ہماری مدد کریں‘۔
دوسری جانب یہ بھی اطلاع آئی کہ احتجاجی مظاہرین کو خواتین پولیس نے منتشر کیا اور موقع سے ایک درجن سے زائد خواتین کو گرفتار کیا جن میں سے دو کو کچھ وقت کے بعد رہا کردیا گیا۔
افغانستان حکومت کی جانب سے خواتین کی اعلٰی تعلیم پر پابندی کے اعلان کے ساتھ عالمی سطح پر کابل کے حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
جی سیون ملکوں کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں سے سلوک کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیتے ہوئے طالبان سے خواتین کی اعلٰی تعلیم پر پابندی کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا اہم کردار ادا کرنے والے ملک قطر نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
سعودی عرب نے افغانستان میں طالبان کے زیرانتظام حکومت کی جانب سے طالبات کی یونیورسٹی تعلیم تک رسائی معطل کرنے کے فیصلے پرافسوس کا اظہار کیا ہے ۔
وزارت نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ طالبان کی جانب سے خواتین کی جامعہ کی سطح پرتعلیم پر پابندی افغان خواتین کو ان کے مکمل قانونی حقوق دینے کے منافی ہے۔ان میں سب سے اہم تعلیم کا حق ہے کیونکہ تعلیم ہی افغانستان اوراس کے برادر لوگوں کے لیے سلامتی، استحکام، ترقی اور خوش حالی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ترکیہ وزارت خارجہ نے افغانستان میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا فیصلہ افسوسناک اور تشویش انگیز عمل قرار دیا۔
ترکیہ وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ ہمیں اس فیصلے پر افسوس ہے۔ تعلیم معاشرے کے تمام افراد کا ایک ایسا بنیادی انسانی حق ہے جس سے کسی کو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
افغانستان میں عوامی توقعات کے پیش نظر تمام بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو بغیر کسی استثنایت کے تعلیم کی فراہمی ملک کے مفّرح و خوشحال مستقبل کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس دائرہ کار میں ہم اس فیصلے پر نظر ثانی کی توقع رکھتے اور امید کرتے ہیں کہ فوری طور پر ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔
سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونو گوتریس کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے لرکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی سے صدمہ پہنچا ہے۔ او آئی سی نے کہا ہے کہ افغان حکومت کے فیصلے پر تشویش ہے۔
امریکی وزیرخارجہ نے خبردارکیا تھاکہ پابندی واپس لینے تک طالبان باقی دنیا کے ساتھ تعلقات بہترکرنے میں ناکام رہیں گے اور پابندی واپس نہ لی تو اس کی قیمت چکانی ہوگی۔
عالمی دباو کے بعد افغان نگراں وزیر ہائر ایجوکیشن نے کہا کہ خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور خواتین کی تعلیم سے متعلق معاملات پر بات چیت جاری ہے۔