اقوام متحدہ کا عالمی دن اور پاک فوج کا امن مشن میں کردار

Spread the love

24 اکتوبر 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ جس کا مقصد آئندہ نسل کو ممکنہ طور پر جنگوں سے بچانا اور دنیا میں امن وآشتی کی فضاء کو برقرار رکھنا ھے۔ اس ادارے کے بنیادی احداف انصاف کی فراہمی، انسانی حقوق کا احترام ، عالمی قوانین کا اطلاق، سماجی واقتصادی ترقی اور انسانی حقوق کا بول بالا کرنا ہے ۔ تقریباً 192سے زائد آزاد ممالک و ریاستیں اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ ان سب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مذہب، زبان، رنگ و نسل اور جنس کے فرق سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کا احترام اور دنیا بھر میں امن کا پرچم بلند کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی 24 اکتوبر کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے عالمی دن کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اپنے قیام کے دو سال بعد 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 24 اکتوبر کا دن "یونائٹڈ نیشن ڈے” کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا، تاکہ لوگ اس ادارے کے قیام کا مقصد، اور اسکی سرگرمیوں اور ساتھ ہی اس کی کامیابیوں کے بارے میں جان سکیں۔
اس دن امن مشنز سے وابستہ افواج کے شہداء کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس موقع پر اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان کی امن کوششوں کو بھی بھرپور طور پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ بنا، اور اج تک اس عظیم مشن کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کا کردار شروع دن سے مثالی ہے۔ ان امن مشنز میں پاکستان کے اب تک 171 افراد نے عالمی سطح پر انسانیت کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان نے اب تک اقوام متحدہ کے 46 امن مشن میں حصہ لیا ہے جن میں کچھ انتہائی کھٹن اور چیلنجنگ تھے۔ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اقوام متحدہ کے سب سے زیادہ امن مشنز میں حصہ لینے والا ملک ہے۔
اقوام متحدہ کے ان امن مشنوں میں پاکستان کے اب تک 2 لاکھ سے زیادہ فوجی اپنے خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور باقی دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاک فوج کی جرت مندانہ اور بے مثال خدمات کا اعتراف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے اہم رہنماؤں نے بھی کیا ہے۔ میجر جنرل تھامس ایم منٹگمری جنہوں نے صومالیہ میں اقوام متحدہ کے آپریشن کے ڈپٹی کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دی (UNOSOM II) انہوں نے بھی قیام امن میں پاک فوج کے کردار کو سراہا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اب پاک فوج اقوام متحدہ کے امن مشن کا ایک لازمی جز ہے، اور اقوام متحدہ کے مشنز پاک فوج کے بغیر ادھورے ہیں تو یہ بلکل بھی مبالغہ نہ ہوگا۔
اگر ان امن مشنز میں پاکستان کے کردار کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے، جس طرح پاکستانی افواج نے اپنے ملک میں امن کا پرچم بلند کیا ہے اس طرح دنیا کے تمام ممالک میں امن کا پرچم بلند کرنے کے لیے 1960 سے کوشاں ہیں۔ پاکستان نے اس سلسلے میں کانگو، مغربی نیو گنی، ہیٹی، کمبوڈیا، بوسنیا، صومالیہ، روانڈہ، انگولا،
سیرالیون، لائیبریا وغیرہ میں اہم خدمات سر انجام دیے۔
اگست 1960 میں کانگو میں امن کی فضاء بحال کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے پرچم تلے پاک فوج نے اپنا پہلا دستہ تعینات کیا۔ مئی 1964 تک تقریباً 4 سال تک پاک فوج نے 400 سپاہی اور افسران کا دستہ بھیج کر امن مشن میں حصہ لیا۔ پاک فوج کے 1500 جوانوں نے اکتوبر 1962 سے لے کر اپریل 1963 تک مغربی نیو گنی میں امن مشن میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ اپریل 1989 سے لے کر مارچ 1990 تک پاک فوج نے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے لیے 20 عسکری مشاہدین نمیبیا بھیجیں۔ تقریباً تین سال کے لیے یعنی 1993 سے لے کر 1996 تک 525 پاک فوج کے جوانوں نے ہیٹی میں امن مشن میں بھرپور حصہ لیا۔ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی پاک فوج کے کردار کو سراہا گیا۔
اگر کمبوڈیا کی بات کی جائے تو پاک فوج کے ہزار 106 جوان مارچ 1992 سے لے کر نومبر 1993 تک امن مشن میں شریک ہوئے۔ یہاں ایک بات لازمی ہے کہ اس دفعہ اس مشن میں عام فوجیوں، افسران اور سٹاف کے علاوہ بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والا عملہ بھی شامل تھا۔
بوسنیا کی اگر بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مارچ 1992 سے لے کر فروری 1996 تک بوسنیا ہرزیگووینا میں امن کی فضاء بحال کرنے میں پاک فوج کے 300 سپاہی شریک ہوئے۔ جن میں سے 6 جوان شہید بھی ہوگئے۔ بد قسمتی سے پاک افواج کے جوانوں کے لیے اگلا امن مشن بوسنیا کے ام مشن سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا۔ مارچ 1992 سے لے کر فروری 1996 تک صومالیہ میں پاک فوج کے 7 ہزار 200 اہلکاروں نے حصہ جن میں 39 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
اس طرح روانڈہ میں اکتوبر 1993 سے لے کر مارچ 1996 تک پاک فوج نے 7  عسکری مشاہدین کو بھیجے۔ انگولا میں فروری 1995 سے لے کر جون 1997 تک 14 عسکری مشاہدین بھیجے گئے۔ جنہوں نے اس امن مشن میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔
مزید یہ کہ مئی 1996 سے لے کر اگست 1997 تک مشرقی سلوانیہ میں پاک فوج نے 1 ہزار 14 فوجی اہلکار اور سٹاف کو اقوامِ متحدہ کے امن مشن پر بھیجا۔
سیرالیون کی اگر بات کی جائے تو پاک فوج نے اکتوبر 1999 سے لے کر دسمبر 2005 تک 5 ہزار فوجی بھیجے گئے۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں بھی 6 جوان شہید ہوئے۔
31 دسمبر  2021 کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے 4000 افراد اقوام متحدہ امن مشن پر تعینات تھے۔ اگر موجودہ صورتحال (2022) کا جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پاک فوج کے 4399 اہلکار امن مشن پہ تعینات ہیں۔ جن میں 47  عسکری مشاہدین، 109 اسٹاف افسر اور باقی پاک فوج کے جوان شامل ہیں۔
حال ہی میں قطر میں میگا ایونٹ "فیفا ورلڈ کپ 2022“ کی سیکیورٹی کی سنبھالنے کے لیے پاک فوج کا دستہ قطر میں موجود ہے۔ دستہ آرمی آفیسرز، جونئیر کمیشنڈ آفیسرز اور جوانوں پر مشتمل ہے۔ قطرکی حکومت نے پاکستان سے فیفا ورلڈ کپ2022کے دوران سیکیورٹی میں معاونت کی درخواست کی تھی۔
اس کے علاوہ ہمارے بہادر جوانوں کے ساتھ بہادر قوم کی بہادر بیٹیاں بھی ان شورش زدہ علاقوں میں ”بلیو ہیلمٹ” یعنی امن کا نشان سرپر سجائے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن دستوں میں پاکستانی خواتین کا کردار وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ خواتین تنازعات کے ساتھ ساتھ اس کے بعد کے حالات میں مدد فراہم کرکے دنیا بھر کی خواتین کی مدد کر رہی ہیں۔ پاک افواج خواتین افسران کی ایک 15 رکنی ٹیم اس وقت جمہوریہ کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان سے پہلی خواتین گروپ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اس ٹیم میں ماہر نفسیات، ڈاکٹرز، نرسز، انفارمیشن آفیسر سمیت دیگر افسران شامل تھیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی خواتین کا کردار نہایت متاثر کن اور امن کے لیے ان کی خدمات کلیدی ہیں تو بلکل غلط نہ ہوگا۔