روس کا یوکرین کے زیرقبضہ علاقوں میں ریفرنڈم کا اعلان

Spread the love

روس نے یوکرین کے زیر قبضہ علاقوں میں ریفرنڈم کا اعلان کردیا ہے۔ ڈونباس ، خیرسون اور زاپوریزیا کی روس میں شمولیت کے لیے 23 سے 27 ستمبر کو ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ یوکرین  کے علیحدگی پسند عہدیدارڈینس میروشنیچینکو  کا کہنا ہے کہ عوامی کونسل نے خیرسون میں ریفرینڈم کے دن 23 ستمبر سے 27 ستمبر تک مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد دونیتسک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اعلان کیا کہ اسی تاریخ کو دونباس میں بھی ریفرینڈم کرایا جائے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے کہا ہے کہ شروع سے کہتے رہے ہیں کہ متعلقہ علاقوں کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے، اور اب ایسا کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب یوکرین اور اس کے اتحادیوں نے ریفرنڈم کے منصوبے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نئی پیش رفت سے روسی فوج کے حملے  کے ساتھ شروع ہونے والا سات ماہ پرانا بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔یوکرین نے ریفرنڈم کے منصوبے کوروس کا اسٹنٹ قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام دراصل میدان جنگ میں ہونے والے نقصانا ت پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔

یوکرین نے ان ریفرنڈمز کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بے معنی قرار دے دیا ہے۔  یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا کا کہنا ہے کہ روس جو چاہے کرلے لیکن اس سے کچھ بھی نہیں بدلے گا، یوکرین کو اپنے علاقوں کو آزاد کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے مجوزہ ریفرنڈمز کی مذمت کی ہے اور نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ریفرنڈم کو "شیطانی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ روس یوکرین میں مزید فوجیں بھیج رہا ہے۔کینیڈا اور یورپی یونین نے بھی ریفرنڈم کے منصوبے کی مذمت کی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ کوئی بھی ووٹ قانونی طور پر بے معنی ہوگا۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں موجود عالمی رہنماوں نے ریفرنڈم کے منصوبے کی مذمت کی۔

خبرایجنسی کے مطابق یوکرین میں روس کی جارحیت کےابتدائی دنوں میں ماسکو کے فوجیوں نے جنوبی علاقے خیرسن میں بھی ووٹنگ کا انعقاد کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق روس میں ان  علاقوں کا انضمام یوکرین میں جاری مسلح تنازع میں مزید شدت کا سبب بنے گا کیونکہ ماسکو یہ کہنے کے قابل ہوگا کہ وہ یوکرین کی افواج کی جارحیت سے اپنے علاقے کا دفاع کررہا ہے۔

ایک طرف روس زیر قبضہ علاقوں میں ریفرنڈم کروارہا ہے تو دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ملک میں جزوی طور پر متحرک ہونے کا اعلان کرنے  والے  ایک حکم نامے پر دستخط کر دیے۔ اس حکم نامے میں کہا گیا کہ صرف وہ شہری جو اس وقت ریزرو میں ہیں ، اس سے پہلے فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں ، جن کے پاس کچھ فوجی خصوصیات اور تجربہ ہے وہ جزوی طور پر متحرک ہونے کے حکم نامے سے مشروط ہوں گے۔ فوجی ڈیوٹی کے لیے بلائے جانے والوں کو خصوصی ملٹری کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافی فوجی تربیت  حاصل کرنی ہوگی۔

غیر ملکی خبر  رساں ایجنسی کے مطابق  ٹی وی خطاب کے دوران روسی صدر  ولادیمیر  پیوٹن نے دونباس،  زاپوریزیا اور خیرسون علاقوں کی خود مختاری کی قرار دادوں کی حمایت اور مغرب پر تنقید کی ۔ انہوں نے کہا کہ مغرب روس کے خلاف نیوکلیئر بلیک میلنگ میں ملوث ہے اور روس کے خلاف جارحیت میں تمام حدیں کراس کر چکا ہے۔ ہمارے پاس مغرب کو جواب دینے کے لیے بہت سے ہتھیار ہیں اور یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے، روس اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے تمام وسائل استعمال کرے گا۔ صدرپیوٹن نے مغرب پر الزام بھی لگایا کہ مغرب یوکرین اور روس کے درمیان امن نہیں چاہتا لیکن ہم یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں کے لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نےامریکی میڈیا کو دئیے گئے ایک  انٹرویو میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے اُزبکستان میں صدر پیوٹن سے ہونے والی بات چیت سے اُن کا اندازہ ہے کہ صدر پیوٹن یوکرین جنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں۔  یوکرین جنگ سے روس کیلئے کافی مسائل پیدا ہوئے ہیں اب صورت حال مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ صدر اُردوان روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر پرُامید  بھی نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ روس اور یوکرین دونوں کا اتحادی ملک ہے، وہ معاملات طے کرانے کی خاطر درمیانی راہ نکالنے کیلئے کوشاں رہے ہیں، امید ہے ان کوششوں کا جلد مثبت نتیجہ نکلے گا۔