عمران خان 31اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ طلب

Spread the love

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو 31 اگست کے لئے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیاہے۔انہیں ذاتی حثیت میں طلب کر لیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی عدالتی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب اور جسٹس بابر ستار لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محسن اخترکیانی نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ اب تین ججز سے زیادہ ججز پر مشتمل بینچ سنے گا،ہم عمران خان کو سیکشن 17 کے تحت شو کاز نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ایک خاتون جج سے متعلق ریمارکس دیئے گئے وہ کئی کیسز سن رہی ہیں ۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا تو ہر کوئی اٹھ اٹھ کر مارے گا۔وزیراعظم رہنے والے لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جاسکتی، سنجیدہ معاملہ ہے اور صرف اسلام آباد کی ماتحت عدالت کی جج تک محدود نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوران سماعت استفسار کیا کہ یہ متنازع ریمارکس کب دیئے گئے ؟ ایڈوکیٹ جنرل نے ایف نائن پارک میں جلسے سے عمران خان کا بیان پڑھ کر سنایا ۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ 20 اگست کو پبلک ریلی میں متنازعہ ریمارکس کا استعمال کیا گیا ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کس کیس میں ریمارکس دئیے گئے ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری نے شہباز گل کیس سنا تھا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے شہباز گل کا دوبارہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اداروں کے خلاف کسی بھی پارٹی کا عہدیداروں کے بیانات کا سلسلہ روکنا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ زیر سماعت کیس میں کوئی کیسے ریمارکس دے سکتے ہیں ؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ زیر سماعت کیسسز میں تو عدالت بھی مداخلت نہیں کرسکتی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس میں کہا کہ آپ جس طرح دلائل دے رہے ایسا لگ رہا کہ کیس آپ نے دائرکیا ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک خاتون ایڈیشنل سیشن جج کو نام سے مخاطب کرکے پکارا گیا،اگر عدالتوں کو ایسا آپ دھمکاتے رہے تو کیسے چلے گا ؟ یہ بات صرف اسلام آباد کی حد تک نہیں پورے پاکستان میں ججز کام کررہے ہیں۔ جو عدالت کام کرے یا کسی کے خلاف فیصلہ دے تو سب نے اس کے خلاف تقریریں شروع کریں گے ۔ عام لوگوں کو کس طرف لے کر جارہے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ لوگ اپنا فیصلہ خود کرے  ؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ جو شخص ملک کا وزیر اعظم رہا ہو اس سے ایسے بیانات کی توقع کرنا چاہیے ۔ جو بھی خلاف فیصلہ دے گی اس کے خلاف تقریریں کی جائیں گی؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسے استفسار کیا کہ کیا جس خاتون جج کو دھمکی دی گئی اس کو اضافی سیکورٹی دینے کو تیار ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ہاں،ہم تیار ہیں۔

سماعت سے قبل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے متفرق درخواست دائر کی تھی۔جس میں موقف اپنایا کہ عمران خان کے ویڈیو کلپس ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، اس لیے عمران خان کے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر دیے بیانات کی ویڈیوز بھی ریکارڈ پر لانے کی اجازت دی جائے۔

متفرق درخواست میں کہا گیا کہ عدالت کے لیے یہ بیانات فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے، عمران خان کے عدلیہ متعلق بیانات کو کمرہ عدالت میں چلانے کی اجازت دی جائے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 21 اگست کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت تھانہ مارگلہ میں اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران و عدلیہ کودھمکی دینے پر مقدمہ درج کیا گیا۔یہ مقدمہ ڈیوٹی مجسٹریٹ علی جاویدکی مدعیت میں درج کیا گیا۔مقدمے میں سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے اور کام سے روکنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

مقدمے کے متن کے مطابق عمران خان نے ایف نائن پارک جلسے میں ایڈیشنل سیشن جج اورپولیس افسران کوڈرایا دھکمایا اور ان کی تقریر کا مقصد پولیس حکام اورعدلیہ کو دہشت زدہ کرنا تھا۔

ایف آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ ڈرانے دھمکانے کا مقصد پولیس افسران اور عدلیہ کو قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے سے روکنا تھا۔مقدمے کے متن کے مطابق عمران خان کی تقریرسےعوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 20 اگست کی رات کو شہباز گل پر مبینہ تشدد کے خلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پرکیس کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ کو نام لیکر دھمکی بھی دی تھی۔