ایران کا جوہری معاہدے سے متعلق یورپی یونین کو جواب

Spread the love

ایران نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لئےحتمی متن یورپی یونین کو بھجوا دیا ہے۔ تہران نے ویانا معاہدے کے تازہ ترین مسودے پر اپنا تحریری جواب پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر امریکہ حقیقت پسندی اور لچک کا مظاہرہ کرے تو معاہدہ طے پا جائے گا۔ایرانی نیوز ایجنسی کے مطابق تہران کی مذاکراتی ٹیم کے موقف سے پتہ چلتا ہے کہ تین معاملات پر اختلافات موجود ہیں،جن میں امریکہ نے دو موضوعات میں زبانی لچک کا اظہار کیا ہے لیکن اسے متن میں شامل کیا جانا چاہیے۔ تیسرا مسئلہ جوہری معاہدے کے نفاذ کو جاری رکھنے کی ضمانت دینے سے متعلق ہے جس کا انحصار ایرانی رائے کی فراہمی کے لیے امریکہ کی حقیقت پسندی پر ہے۔

ترجمان نے ایرانی وزارت خارجہ نے مذاکرات کے حتمی متن کو ایران کی ریڈ لائنوں کے پاس و لحاظ سے مشروط قرار دیا ہے۔ ناصر کنعانی نے بتایا کہ ویانا اور دوحہ میں طویل مذاکرات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ کا حتمی معاہدہ پہلے سے کہیں زیادہ دستیاب ہے۔ بشرطیکہ امریکہ عملی طور پر ایک مستحکم اور قابل اعتماد معاہدے کے تقاضوں کو قبول کرے۔

ترجمان نے بتایا کہ قومی سلامی کونسل کے خصوصی اجلاس میں مسائل پر گفتگو کی گئی جس کے بعد یورپی یونین کو تحریری طور پر ایران کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر یہ تجاویز تسلیم کرلی گئیں تو جوہری معاہدے کی بحالی کیلئےایران تیار ہوگا۔

رپورٹس کے مطابق جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے غیر رسمی بات چیت کا سلسلہ کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد رواں ماہ کے آغاز ویانا میں شروع ہوا تھا۔ چار روز تک جاری رہنے والے آخری دور میں مذاکرات کے بعد یورپی یونین نے ایک ’حتمی مسودہ‘ پیش کیا۔ جس کے بعد ایران اور دیگر ملکوں کے سفارت کار اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے۔جس پر ایران نے بھی اپنی یورپی یونین کو جواب بھجوایا ہے۔

یورپی یونین کےعہدیدار کے مطابق کچھ رکاوٹوں پر پیش رفت ہو رہی ہے جس میں یہ ضمانت بھی شامل ہے کہ آئندہ امریکا پیچھے ہٹ کر معاہدے کو ختم نہیں کرے گا۔

امریکی امور خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس  کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے غیرضروری شرائط رکھی جاتی ہیں۔اگر تہران اپنی غیر منطقی شرائط سےدستبردار ہو تو معاہدہ ہو سکتا ہے ۔

خبرایجنسی کے مطابق دوہزار پندرہ میں ہونےوالے معاہدے کے نتیجے میں امریکا نے ایران سے بہت ساری پابندیاں اٹھا لی تھیں۔ لیکن دوہزار اٹھارہ میں اُس وقت  کے امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو ایرانی جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر پابندیوں کا نئے سرے سے اطلاق کر دیا ۔اب دوبارہ اسی معاہدے میں امریکی کی واپسی کے لئے معاہدے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔