میجر طفیل محمد شہید نشان حیدر کا یوم شہادت

Spread the love

نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے قوم کے بہادر سپوت میجر طفیل محمد شہید کا 64واں یومِ شہادت ملی جوش و جذبے سے آج منایا گیا ۔ میجر طفیل محمد شہید نے مشرقی پاکستان میں لکشمی پور کا فاتح بن کر دشمنوں کے دانت کھٹے کردئیے۔قوم اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولے گی۔

میجر طفیل محمد شہید نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے قوم کے دوسرے سپوت ہیں۔جنھوں نے وطن کی حرمت پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کردی ۔جسے ہمیشہ  ملک کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

میجرطفیل محمد شہید کے والد کا نام چودھری موج الدین تھا۔ آپ کا خاندان موضع کھرکاں ضلع ہوشیار پور (بھارت) کا رہائشی تھا۔ 1913 ء میں ہوشیار پور سے ضلع جالندھر کے ایک گاؤں میں منتقل ہو گئے۔ جہاں پر 22 جولائی 1914 ء کو طفیل محمد نے جنم لیا۔ طفیل محمد لکھنے پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو انہیں شام چورائی کے ایک مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔اسی مدرسے سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج جالندھر میں داخلہ لے لیا۔اس کالج سے انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔پنجاب ریجمنٹ میں 1943ء میں کمیشن حاصل کیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد آپ کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی جس کے بعد طفیل محمد پاک فوج کا حصہ بن گئے۔

مسلح فورسز میں ایک امتیازی کیرئیر کے بعد 1958 ء میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے مشرقی پاکستان تعینات ہوئے۔جون 1958ء میں میجر طفیل محمد کی تعیناتی ایسٹ پاکستان رائفلز میں ہوئی۔ اگست 1958ء کے اوائل میں انہیں لکشمی پور کے علاقے میں ہندوستانی اسمگلرز کا کاروبار بند کرنے اور چند بھارتی دستوں کا صفایا کرنے کا مشن سونپا گیا جو کہ لکشمی پور میں مورچہ بند تھے۔وہ اپنے دستے کے ساتھ وہاں پہنچے اور8 اگست کو بھارتی چوکی کو گھیرے میں لے لیا۔

اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے،دشمن سے 15 گز کے فاصلے پر پہنچ گئے۔ جب مورچہ بند دشمنوں نے مشین گن سے فائر شروع کئے تو میجر طفیل اپنے ساتھیوں میں سب سے آگے ہونے کی وجہ سے ان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے پہلے سپاہی تھے۔ برستی گولیوں میں بے تحاشہ بہتے خون کی حالت میں انہوں نے ایک گرینیڈ دشمنوں کی طرف پھینکا جو سیدھا دشمن کے گن مین کو لگا۔ جسم میں خون کے بہنے سے ان کی زندگی کا چراغ بجھنے کو تھا۔اس حالت میں بھی آپ اپنے ساتھیوں کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔

ایک مشین گن تو خاموش ہوگئی لیکن دوسری مشین گن نے اسی وقت فائرنگ شروع کر دی۔جس کی اندھا دھند فائرنگ سے میجر طفیل کے سیکنڈ ان کمانڈ نشانہ بن گئے۔میجر طفیل نے ایک گرینیڈ کے ذریعے اس گن کو بھی تباہ کردیا۔اس دوران آپ کا خون بہتا رہا۔آپ اپنے نوجوانوں کو ہدایات دیتے رہے۔

دشمن کی فائرنگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میجر طفیل محمد شہید نے زخمی ہونے کے باوجود پیش قدمی جاری رکھی اور ایک دستی بم پھینکا جس سے بھارتی مشین گن ناکارہ ہوگئی اور آپ نے لکشمی پور میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ قوم کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے میجر طفیل محمد نے لکشمی پور میں بھارتی چوکیوں کا صفایا کرتے ہوئے ملک کی آخری دم تک حفاظت جاری رکھی ۔ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔ آپ کو فاتحِ لکشمی پور کا اعزاز بھی دیا گیا۔اُس وقت کے صدرِ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے میجر طفیل محمد شہید کو اعزاز عطا کیا جبکہ آپ کی بے مثال قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت نے پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر بھی عطا کیا۔ میجر طفیل محمد کو فاتح لکشمی پور بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مزار بورے والا کے نواحی گاؤں طفیل آباد میں ہے۔