یمن کے فریقین کے درمیان مزید 2 ماہ کی جنگ بندی

Spread the love

یمن کے متحارب فریقین کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو گئے ۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانز گرنڈبرگ نے اعلان کیا کہ یمن کے متحارب فریق جنگی بندی کے لیے دو اگست سے دو اکتوبر تک مزید دو ماہ کی توسیع پر متفق ہو گئے ہیں۔ اب اس جنگ بندی پر اتفاق کو ایک باضابطہ معاہدے کی شکل دی جائے گی۔جنگ زدہ ملک میں  کئی ماہ سے جاری جنگ بندی کی وجہ سے ملک نے امن قائم ہوا ہے ۔ گزشتہ سات برسوں سے جاری تنازعے کے دوران نسبتاً پرسکون رہنے کا یہ پہلا طویل ترین دور ہے۔

گرنڈ برگ نےفریقین پر زور دیا کہ اس جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں ایک جامع سیز فائر کی طرف بڑھنے کے لیے مذاکرات کرنا ہوں گے ۔اس مواقعے فائدہ حاصل کرنے کے لئے کوششیں جاری بھی کی جا رہی ہیں تاکہ ایک پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ گرنڈ برگ نے اس پیش رفت کے لیے سعودی عرب، سلطنت اومان، سمیت دیگر بین الاقوامی برادری  کی امن کے لیے حماہت کا شکریہ ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے ایلچی نے سلامتی کونسل کے ارکان کے کردار کو بھی سراہا۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے اقوام متحدہ نے یمن کے متحارب فریقوں پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی میں چھے ماہ کی توسیع پراتفاق کریں۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یمن حکومت نے اس پیش رفت کے بارے میں یو این کے ایلچی کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا  کہ جنگ بندی کا اصل مقصد یمنی عوام کے بہنے والے خون کو روکنا ہے۔جو حوثی باغیوں کی شروع کردہ جنگ کی وجہ سے بہہ رہا ہے۔

حکومت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ تعز کا محاصرہ فوری ختم کرایا جائے۔ حوثیوں سے جنگ بندی کی تمام شرائط اور تقاضوں پر عمل کرایا جائے۔ حدیدہ بندرگاہ سے ہونے سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کو سویلین سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے۔حکومت نے اقوام متحدہ کے ایلچی کو منصفانہ امن کے قیام کے لیے مکمل حمایت دینے کا عزم دہرایا تاکہ یمن کے لیے بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ قرارداد پرعمل ہوسکے۔

واضح رہے کہ دونوں متحارب فریق معاہدے کی مکمل شرائط پرعمل درآمد کے بارے میں مایوسی کا اظہارکرچکے ہیں۔ حوثیوں نے جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سات سالہ جنگ میں حالیہ مہینوں میں کی گئی جنگ بندی کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔ "جنگ بندی کا تجربہ مایوس کن رہا اس لیے اسے مستقبل میں دہرایا نہیں جا سکتا، حوثی باغیوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا ۔ اگر جنگ بندی کا سعودی عرب احترام کرے تو اس دروازے کو کھلا رکھا جا سکتا ہے تاکہ کوئی بات چیت جاری رہ سکے۔دوسری جانب یمنی حکام نے حوثیوں پربھی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام  کرتے ہوئے کہا کہ سمجھوتے کے مطابق مرکزی شاہراہیں دوبارہ نہیں کھولیں ۔ان پر الحدیدہ کی بندرگاہ سے محصولات میں حصہ نہ دینے کا شکوہ کیا۔

حوثی ملیشیا نے عرب اتحاد پر حالیہ ہفتوں کے دوران میں الحدیدہ میں پہنچنے والے ایندھن سے لدے جہازوں کی تعداد میں کمی کا الزام لگایا گیا ۔یہ بھی کہا  کہ مصر نے صنعاء سے قاہرہ جانے والی ایک سے زیادہ پروازوں کو اترنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اُدھر یمنی فوج کے میڈیا سینٹر کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے مختلف محاذوں پر اقوام متحدہ کی جنگ بندی معاہدے کی 188 خلاف ورزیاں کی ہیں۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن گرنڈبرگ نے کہاکہ وہ آنے والے ہفتوں میں، فریقین کے ساتھ اپنی مصروفیات کو مزید تیز کریں گے تاکہ جنگ بندی میں فریقین کی تمام ذمہ داریوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی توسیع کو ایک مثبت قدم قرار دیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جزیرہ نما عرب کے کنارے واقع بنجر اور پہاڑوں پر مشتمل یمن ملک کے دارالحکومت صنعا پر 2014 میں حوثی باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ زدہ ملک میں امن کے لئے فریقین کے درمیان معاہدے میں توسیع کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس تنازعے نے ایک ایسے انسانی بحران کو جنم دیا جس کی وجہ سے چالیس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور تقریبا ًدو کروڑ کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ یمن میں گذشتہ آٹھ سال سے جاری تنازع میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔