نیلسن منڈیلا کو عالمی دن پر خراج تحسین

Spread the love

جنوبی افریقہ سے نسلی امتیاز کا خاتمہ کرنے والے اور ملک کے جمہوری صدر منتخب ہونے والے نیلسن منڈیلا کا آج عالمی دن منایا گیا۔یہ دن نیلسن منڈیلا کی انسانی حقوق کے لئے کی گئی جدوجہد  کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال اٹھارہ جولائی کو ان کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے۔ ان کے یوم پیدائش  پر  عالمی دن منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے 2009 میں کیا تھا۔

اقوام متحدہ کا عظیم لیڈر کو خراج تحسین

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے نسلی امتیاز اور ریاستی جبرو استبداد کے بعد جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر اور نسلی امتیاز کی مخالف شخصیت نیلسن مینڈیلا کے عالمی دن پر انہیں زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ نیلسن منڈیلا ہمارے دور کی قد آور ترین شخصیت تھے جو آج بھی ہم سب کے لیے اخلاقی معیار ہیں۔ وہ آزاد اور جمہوری جنوبی افریقا کے حامی اور اس جنگ کے فاتح تھے جنہوں نے نسل پرست حکومت کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے تقریباً تین دہائیاں جیل میں گزاریں۔ وہ نیلسن مینڈیلا آزادی اور وقار کے راستے پر مضبوط عزم کے حامل ،ہمدردی اور محبت کے جذبے سے سرشار تھے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی اس بات کے لیے وقف کر دی کہ ہر کوئی بہتر مستقبل کی طرف بڑھنے کی صلاحیت اور ذمہ داری رکھتا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا آج جنگ کی لپیٹ میں ہے جہاں ہنگامی حالات ، نسل پرستی، امتیازی سلوک، غربت ، عدم مساوات اور آب و ہوا کی تبدیلی سے تباہی کا خطرہ ہے۔ان حالات میں نیلسن مینڈیلا کے وژن پر گامزن ہو کرامیدکی کرن روشن کی جا سکتی ہے ۔ عملی اقدامات ان کی میراث کا احترام کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیلسن مینڈیلا کی مثال پر عمل کرتے ہوئےہمیں دنیا کو سب کے لیے زیادہ انصاف پسند، ہمدرد، خوشحال اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔

صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کا پیغام

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انسانی وقار اور مساوات کے غیر معمولی وکیل اور عظیم عالمی رہنما نیلسن منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا  کہ نیلسن منڈیلا آزادی، امن اور سماجی انصاف کے حصول کیلئے جرات، ہمدردی اور عزم کی مثال ہیں۔ نیلسن منڈیلا ایک بااصول رہنما تھے،آزادی کیلئے وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار تھے ۔ بڑی مشکلات کے باوجود انہوں نے انتہائی ہمت اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ ہم سب میں نسل پرستی، امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف لڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے ملک میں نسلی امتیاز پر مبنی نظام کے خلاف لڑنے پر 27 سال جیل میں گزارے۔ جنوبی افریقا کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے معافی اور مفاہمت پر زور دیا، قومی مفاہمت کی پیروی کی اور بھاری اکثریت کے باوجود جنوبی افریقا کی سفید فام آبادی کے خلاف عدم امتیاز کی یقین دہانی کرائی۔

ڈاکٹرعارف علوی کا کہنا تھا آئیے ہم نیلسن منڈیلا کی مثال اور ان کے وژن سے سبق حاصل کریں۔ نفرت کے خلاف آواز اٹھائیں اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوں تاکہ دنیا کو سب کے لیے زیادہ انصاف پسند، ہمدرد، خوشحال اور پائیدار بنایا جاسکے۔ صدر مملکت نے کہا کہ آج ہم اپنے ملک اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے جمہوری اصولوں کو قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں ۔

نیلسن منڈیلا کی سیاسی جدوجہد

نیلسن منڈیلا نے 18 جولائی  1918ء کو جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق  مديبا قبیلے سے تھا۔ان کے اسکول کے ایک ٹیچر نے ان کا انگریزی نام نیلسن رکھا ۔ ان کے والد تھیبو راج خاندان میں مشیر تھے اور جب ان کی وفات ہوئی تو نیلسن منڈیلا 12 سال کے تھے ۔ ان کا بچپن تھیبو قبیلے کے سربراہ جوگنتابا دلنديابو کی نگرانی میں گزرا ۔

رپورٹس کے مطابق  سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لیے 1912 میں قائم افریقن نیشنل کانگریس سے نیلسن منڈیلا 1942 میں منسلک ہوئے۔ 1948ء میں نیشنل پارٹی کی پہلی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نسل پرستی کو قانونی درجہ دے دیا گیا۔ اس انتخاب میں صرف گوری رنگت والی نسل کے لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے تھے ۔

نوجوانوں کے گروپ کے ساتھ مل کر نیلسن منڈیلا نے آہستہ آہستہ اس جماعت کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کرنا شروع کیا۔ نیشنل پارٹی کی حکومت کے اقدامات پر افریقن نیشنل پارٹی کا جواب سمجھوتہ سے انکار تھا۔ 1949 میں سفید فام قوموں کے قبضہ کو ختم کرنے کے لیے بائیکاٹ، ہڑتال، سول نافرمانی اور عدم تعاون کا اعلان کیا گیا۔

انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور 1952ء میں جوهانسبرگ میں اپنے دوست اولیور ٹیبو کے ساتھ وکالت شروع کی۔ ان دونوں نے نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مہم چلائی ۔اور کئی بار گرفتار ہوئے۔1955 میں منڈیلا نےافریقن نیشنل کانگریس کا”فریڈم چارٹر“ تحریر کیا۔ جس میں انہوں نے قرار دیا کہ ”جنوبی افریقہ ان تمام کا افراد ہے جو یہاں رہتے ہیں۔ سیاہ فام اور سفید ۔ اور کوئی بھی حکومت اقتدارکے حق کا اس وقت تک دعویٰ نہیں کر سکتی جب تک وہ جنوبی افریقہ کے تمام لوگوں کی مرضی سے تشکیل نہ دی گئی ہو ۔“

1962 میں ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش میں عمر قید ہوئی ۔ 27 سال قیدِ تنہائی کاٹی ۔اس دوران نیلسن منڈیلا دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے ایک علامت بن گئے ۔ عالمی دباؤ اور ملک میں شورش کے خدشے کے پیش نظر اس وقت کے صدر نے انھیں 1990 میں رہا کردیا۔بالآخر وہ تاریخی موقع بھی آیا جب 1994ء میں منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر بنے۔

نیلسن منڈیلا کا دورہ پاکستان

امریکہ نے 1991ء میں جاکر اپنی سرکاری فہرست سے نیلسن منڈیلا کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کیا تھا۔اکتوبر 1992 میں نیلسن منڈیلا کا دورہ پاکستان اس وقت ممکن ہوا جب وہ چین کی دعوت پر بیجنگ جا رہے تھے۔ پاکستان کے ہائی کمشنر رفعت مہدی ان سے مسلسل رابطے میں تھے۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز تھے۔1992 میں قائم مقام صدر وسیم سجاد نیلسن منڈیلا کو نشانِ امتیاز پیش کیا گیا۔ انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو اپنا ہیرو قرار دیا۔منڈیلا اس وقت جنوبی افریقہ کے حزبِ اختلاف کے لیڈر تھے۔

بالآخر وہ تاریخی موقع بھی آیا جب 1994ء میں منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر بنے۔تب نسل پرستی کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں ۔وہ لوگ جنہوں نے نیلسن مینڈیلا کو جیل میں قید رکھا۔ انہیں اذیتیں دیں، انہوں نے ان کے لیے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔

وہ ہمیشہ خوش مزاج نظر آئے اور ان کی شخصیت اور زندگی کی داستان نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ پانچ سال صدر کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد 1999ء میں انہوں نے اقتدار چھوڑدیا اور جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ بااثر سفارتکار ثابت ہوئے ۔ انہوں نے ایچ آئی وی اور ایڈز کے خلاف مہم شروع کی اور 2010ء میں فٹ بال عالمی کپ کی جنوبی افریقہ کے لیے میزبانی حاصل کرنے میں بھی ان کی کردار شامل رہا۔

نیلسن منڈیلا کہتے تھے کہ ”میرے ذہن میں ایک ایسے جمہوری اور آزاد معاشرے کا تصورہے جہاں تمام لوگ پُرامن طریقے سے رہیں اور اُنہیں برابری کا موقع ملے۔ یہ وہ سوچ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے میں جینا چاہتا ہوں ، لیکن اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے میں مرنے کو بھی تیار ہوں ۔“

نیلسن منڈیلا کی امن  کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں نوبل امن انعام،سخاروف ایوارڈ ،یو ایس پریزیڈنٹ میڈل آف فریڈم سمیت کئی ایوارڈز سے نوازاگیا۔

نیلسن منڈیلا 5 دسمبر 2013 کو انتقال کر گئے۔یہ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کا ثمر ہے آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں ۔

8 thoughts on “نیلسن منڈیلا کو عالمی دن پر خراج تحسین

  1. … [Trackback]

    […] Information to that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  2. … [Trackback]

    […] Read More on that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  3. … [Trackback]

    […] Find More to that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  4. … [Trackback]

    […] Find More Information here on that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  5. … [Trackback]

    […] Read More on that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  6. … [Trackback]

    […] Find More Information here to that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  7. … [Trackback]

    […] Info on that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

  8. … [Trackback]

    […] Read More here to that Topic: daisurdu.com/2022/07/18/نیلسن-منڈیلا-کو-عالمی-دن-پر-خراج-تحسین/ […]

Comments are closed.