امریکہ اور ایران آمنے سامنے

Spread the love

امریکہ اور ایران کے صدر آمنے سامنے آ گئے ۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال ’’آخری آپشن‘‘ ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے پر بدھ کے روز تل ابیب پہنچے تھے ۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو دورے پر روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں اسرائیلی چینل 12 ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو غیر ملکی دہشت گروں کی فہرست میں شامل رکھیں گے ۔ چاہے اس کے نتیجے میں 2015 والا جوہری معاہدہ ختم ہو جائے۔ جوبائیڈن نے ٹرمپ دور میں ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کے فیصلے کو بھی بہت بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ جوبائیڈن کے نزدیک امریکہ کے معاہدے سے نکلنے سے ایران نے اس وقت سے اپنے جوہری پروگرام کو زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔

ایران کے صدرکا جوبائیڈن کو جواب

ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق امریکہ اور اسرائیل کا ایک موقف سامنے آنے کے بعد ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سخت ’’ریسپانس‘‘ کی دھمکی دی ہے۔انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کسی بھی غلطی کا ایران بڑا سخت جواب دے گا۔عظیم ایرانی قوم خطے کی سلامتی کے خلاف پیدا کیے گئے بحران برداشت نہیں کرے گی ۔ اس لیے واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو خبردار رہنا چاہیے کہ ان کی کسی بھی غلطی پر ایران کی طرف سے بہت سخت اور پچھتاوا پیدا کرنے والا جواب آئے گا۔

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والا معاہدہ

واضح رہے امریکہ اور اسرائیل نے جمعرات کے روز ایرانی جوپری ہتھیاروں کو کسی بھی صورت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایران کے ممکنہ جوہری ہتھیاروں کے خلاف دونوں اتحادیوں نے ایک طویل عرصے بعد ایک واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا ہے ۔اس سے قبل دونوں کے درمیان سفارتی حکمت عملی پر اختلاف تھا۔

امریکی صدرجوبائیڈن اوراسرائیلی وزیراعظم یائرلاپیڈ نے جمعرات کوایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کے انکار سے متعلق مشترکہ اعلامیے پر دست خط کیے ہیں۔

اعلامیے پر دست خط کے بعد جوبائیڈن نے نیوزکانفرنس میں کہا کہ ہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔اعلامیے میں امریکا کی جانب سے اسرائیل کی علاقائی فوجی اتحادی کی حیثیت امداد اور اس کے اپنے دفاع کی صلاحیت کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ہے۔

ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے،امریکہ اسرائیل اعلامیہ

اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکا اس بات پر زوردیتا ہے کہ وہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیارحاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا ۔ وہ اس نتیجے کو یقینی بنانے کے لیے اپنی قومی طاقت کے تمام عناصر کوبروئے کارلانے کو تیار ہے۔

لاپیڈ نے اس انداز کوکھلے تنازع کوٹالنے کے ایک طریقے کے طور پرپیش کیا۔ دستخطوں کی تقریب کے بعد انھوں نے کہا کہ جوہری ایران کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ یہ جان لے کہ آزاد دنیا اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرے گی۔

اس موقع پر صدربائیڈن نے جوہری ایران کی روک تھام کو’’اسرائیل اورامریکا کے لیے سلامتی کاایک اہم مفاد‘‘ قرار دیا اور کہاکہ یہ باقی دنیا کی سلامتی کے بھی بہترین مفاد میں ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن کی صحافیوں سے گفتگو

اس سے قبل صدربائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے لاپیڈ کے ساتھ اس بات پر تبادلہ خیال کیا ہے کہ’’میرے نقطہ نظرسے اسرائیل کوخطے میں مکمل طور پر ضم کرنا کتنا اہم ہے‘‘۔اس ضمن میں لاپیڈ نے بائیڈن کے سعودی دورے کو اسرائیل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔

ہم ایران کی سفارتی تنہائی میں بھی اضافہ کرتے رہیں گے،امریکہ

العریبہ نیوز کے مطابق ایک امریکی عہدیدارسے جب پوچھا گیا کہ کیا یروشلم اعلامیہ اسرائیل سے کچھ وقت لینے کے بارے میں تھا کیونکہ واشنگٹن ایران کے ساتھ مذاکرات پرعمل پیرا ہے؟توانھوں نے کہا:’’اگرایران ویانا میں طے پانے والے معاہدے پردست خط کرنا چاہتا ہے تو ہم نے بہت واضح کر دیا ہے کہ ہم ایسا کرنے کوتیار ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اگرایرانی ایسا نہیں کرتے تو ہم اپنی پابندیوں کے دباؤ میں اضافہ کرتے رہیں گے، ہم ایران کی سفارتی تنہائی میں بھی اضافہ کرتے رہیں گے‘‘۔

یروشلم اعلامیے میں امریکااوراسرائیل کے درمیان لیزرانٹرسیپٹر جیسے دفاعی منصوبوں کے ساتھ ساتھ سویلین ٹیکنالوجیز میں دوطرفہ تعاون مزید بڑھانے کاعہد کیا گیا ہے۔

ایران جوہری تنازعہ ہے کیا؟

واشنگٹن اور اسرائیل ایک طویل عرصے سے ایرانی جوہری پروگرام اور جوہری صلاحیت کے حصول کے خلاف تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایران یہ موقف پیش کرتا رہا ہے کہ اس کا کبھی بھی جوہری بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

ایران اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

تہران نے 2015 میں چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اقتصادی پابندیاں ہٹائے جانے کے بدلے میں اس نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہو گئے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں تھیں ، جس کے بعد تہران نے تقریباً ایک سال بعد جوہری حدود کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی۔

معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوششیں اب تک ناکام ہوئیں ہیں ۔ ایک سینئر امریکی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ دو ہفتے قبل دوحہ میں امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بعد اس کی بحالی کے امکانات کم ہیں۔

8 thoughts on “امریکہ اور ایران آمنے سامنے

  1. … [Trackback]

    […] Information to that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  2. … [Trackback]

    […] Info on that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  3. … [Trackback]

    […] Information on that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  4. … [Trackback]

    […] Find More to that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  5. … [Trackback]

    […] Read More to that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  6. … [Trackback]

    […] Info to that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  7. … [Trackback]

    […] Find More to that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

  8. … [Trackback]

    […] Find More on on that Topic: daisurdu.com/2022/07/14/امریکہ-اور-ایران-آمنے-سامنے/ […]

Comments are closed.