جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو ابے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے۔ خبرایجنسی کے مطابق انہیں نارا شہر میں ایک انتخابی جلسے کے دوران گولی مار دی گئی ۔ انہیں دل کا دورہ بھی پڑا۔ شنزو ابے کو اسپتال لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے۔
جاپان کے چیف کابینہ سکریٹری ہیرو کازو ماتسونو نے میڈیا کو بتایا کہ ‘‘سابق وزیر اعظم ایبے کو جاپان کے مغربی شہر نارا میں تقریباً ساڑھے گیارہ بجے صبح حملہ آور نے گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسی نے گولی چلائی تھی’’۔
چیف کیبنٹ سیکرٹری ہیروکازو ماٹسونو نے کہا تھا کہ ‘‘وجہ جو بھی ہو، ایسے ظالمانہ قدم کو کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں’’۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے ایک بڑی گن تھامی ہوئی تھی اور اس نے عقب سے فائر کیا ۔پہلی گولی غالبا شنزو آبے کو نہیں لگی لیکن دوسری گولی ان کی پیٹھ میں جا کر لگی جس کے بعد وہ زمین پر گرے۔
جلسے میں موجود ایک خاتون نے این ایچ کے کو بتایا کہ ‘‘وہ تقریر کررہے تھے کہ ایک شخص پیچھے سے آیا۔ پہلی گولی کھلونے کی آواز کی طرح تھی۔ اس وقت وہ گرے نہیں تھے اس کے بعد ایک زوردار آواز ہوئی۔ دوسری گولی زیادہ واضح تھی۔ ہمیں چنگاری اور دھواں دکھائی دیا’’۔

سرکاری ٹیلی ویژن چینل این ایچ کے پر نشر ہونی والی فوٹیج کےمطابق شنزو ابے تقریر کرتے ہوئے اچانک گر پڑے اور کئی سکیورٹی اہلکار ان کی جانب لپکے ۔ گرتے وقت ایبے نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور ان کی قمیص خون سے سرخ ہوگئی تھی ۔ این ایچ کے نے بتایا کہ اس کے فوراً بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ پولیس نے جائے واقعہ سے ایک شخص کو قتل کی کوشش کرنے کے شبہ میں گرفتار کرلیا ہے۔
پولیس کی حراست میں ملزم کی شناخت 41 سالہ ٹیٹسوا یاماگامی کے طور پر ہوئی ہے جو نارا شہر کے رہائشی اور جاپان کی میری ٹائم سیلف ڈیفینس فورس کے سابق ممبر ہیں جسے نیوی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جس ہتھیار سے انھوں نے سابق جاپانی وزیر اعظم پر گولی چلائی وہ گھر میں تیار کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق گولی شنزو ایبے کی گردن میں لگی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
سابق وزیر اعظم نوبوسوکے کیشی کے پوتے 67 سالہ شنزو ابے جاپان میں سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔ پہلی مرتبہ وہ 2006 میں وزیر اعظم بنائے گئے۔ اس کے بعد 2012 سے 2020 تک بھی وزیر اعظم رہے۔صحت کی خرابی کے باعث عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو ابے کے مستعفی ہونے کے بعد ان کے قریبی اتحادی یوشیڈے سوگا وزیر اعظم بنے تھے جن کی جگہ بعد میں فومیو کشیڈا نے لی۔
خیال رہے کہ جاپان میں ایوان بالا کے لیے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ شنزو ابے اسی سلسلے میں انتخابی جلسے سے خطاب کررہے تھے ۔ اس حملے نے جاپان کو ہلادیا ہے۔ کیونکہ جاپان کو دنیا کے سب سے محفوظ ملکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور وہاں ہتھیاروں کے سلسلے میں کافی سخت قوانین ہیں۔
جاپان میں ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں کیوں کہ گنز پر پابندی ہے۔ یہاں سیاسی تشدد کے واقعات بھی بہت کم سننے کو ملتے ہیں۔
2014 میں جاپان میں گنز سے اموات کے صرف چھ واقعات ہوئے جب کہ اسی سال میں امریکہ میں تقریبا 33ہزار599 سے زائد واقعات پیش آئے۔
جاپان میں گن خریدنے کے خواہش مند کو ایک سخت ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی ذہنی صحت بھی جانچی جاتی ہے۔ اس کے باوجود صرف شاٹ گن اور ایئر رائفل ہی فروخت کرنے کی اجازت ہے۔
جاپان کے موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدانے شنزو آبے کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفاکانہ فعل قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ میں شنزو آبے کی چھوڑی ہوئی میراث کا بہت احترام کرتا ہوں اور لواحقین کے ساتھ گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔وہ ایک اچھے دوست بھی تھے جس کے ساتھ بہت زیاد ہ گزار ہے۔
فومیو کیشیدا نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات محفوظ طریقے سے کرائے جائیں ۔ ہمیں اس واقعے کو روزانہ کی حکمرانی پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ
بھی بھی تشدد کا شکار نہ ہونے کے عزم کے تحت، ہم کل انتخابی مہم جاری رکھیں گے۔‘‘
عالمی رہنماؤں نے بھی شنزو ابے نے قاتلانہ حملے میں شنزو ابے کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ٹویٹ کیا کہ "جاپان ایک عظیم وزیر اعظم سے محروم ہو گیا ہے”، ابے نے "اپنی زندگی اپنے ملک کے لیے وقف کی اور دنیا میں استحکام کے لیے کام کیا”۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس قتل کو "حیران کن” اور "انتہائی پریشان کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابے کو ایک عظیم رہنما کے طور پر بیان کیا جس نے امریکہ اور جاپان کے درمیان تعلقات کو "نئی بلندیوں تک پہنچایا”۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیس نے کہا کہ ابے "عالمی سطح پر آسٹریلیا کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے” اور "ان کی قیادت میں جاپان ایشیا میں آسٹریلیا کے سب سے زیادہ ہم خیال شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر ابھرا۔ ایک میراث جو آج بھی برقرار ہے”۔
اطالوی وزیر اعظم ماریو ڈراگھی نے کہا کہ وہ "اس خوفناک حملے سے صدمے میں ہیں” اور انہوں نے آبے کو "حالیہ دہائیوں میں جاپانی اور بین الاقوامی سیاسی زندگی کا ایک عظیم مرکزی کردار، ان کے اختراعی جذبے اور ان کے اصلاحی وژن کی بدولت” قرار دیا۔
تائیوان کے صدر تسائی انگ وین نے کہا کہ "نہ صرف بین الاقوامی برادری نے ایک اہم رہنما کھو دیا ہے بلکہ تائیوان نے ایک اہم اور قریبی دوست کو بھی کھو دیا ہے”۔
پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوز موراویکی نے کہا کہ وہ ابے کے قتل کی خبر سے شدید صدمے میں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ "میرے خیالات ہمارے جاپانی دوست کے خاندان کے ساتھ ہیں جو ہمیشہ پولینڈ کے ساتھ بہت مہربان رہے”۔
جاپان میں چینی سفارت خانے نے کہا کہ ابے نے "اپنی مدت کے دوران چین جاپان تعلقات کو بہتر بنانے میں تعاون کیا” اور ان کی موت پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔
فلپائن کے خارجہ امور کے محکمہ نے کہا کہ ابے کی "بہت سے فلپائنیوں نے بہت تعریف کی”۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے جاپان سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئےشنزو ابے کو گولی مارنے کو "ناقابل معافی جرم” قرار دیا۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ وہ شنزو ابے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے حیران کر دیا ہے۔ جرمنی "اس مشکل گھڑی میں جاپان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا”۔
رومانیہ کے صدر نےشنزو ابے کو "جمہوریت اور کثیرالجہتی کا مضبوط محافظ اور ایک سچا دوست” قرار دیا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ وہ ایک اچھے دوست سے محروم ہو گئے ہیں۔میں اس حملے کی مذمت کرتا ہوں۔