107سال بعدملنے والے جہاز کا ملبہ اہم کیوں!

Spread the love

انٹارکٹیکا میں واقع سمندر قطب جنوبی میں مشہور بحری جہاز ’اینڈیورنس‘ کا ملبہ 107سال بعد مل گیا

Shackleton's lost ship is found in Antarctic
Spread the love

براعظم انٹارکٹیکا میں واقع سمندر قطب جنوبی میں مشہور بحری جہاز ’اینڈیورنس‘ کا ملبہ 107سال بعد مل  گیا۔ سر ارنسٹ شیکلٹن کی کپتانی میں اینڈیورنس نامی جہاز انٹارکٹیکا میں غرق ہوگیا تھا۔ تاہم  اس میں سوار تمام افراد چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوکر اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

محقیقین کا ماننا تھا کہ جہاز کو برف کا ٹکڑا گھسیٹ کر کسی اور جانب لے گیا اور اس پر مٹی کی تہہ جم گئی ہو گی۔انٹارٹیکا میں شیکلٹن کی یہ تاریخی مہم 1914 سے 1917 تک جاری رہی تھی اور اس کا مقصد پہلی مرتبہ برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم کو عبور کرنا تھا لیکن اینڈیورنس راستے میں پھنسی ہوئی سمندری برف میں کھو گئے۔

جہاز کا ملبہ ’’اینڈیورنس 22‘‘نامی ٹیم نے ڈھونڈا۔ یہ وہ ٹیم ہے جس نے جہاز کا پتہ لگانے کے لیے سر ارنسٹ کی موت کے سو سال مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے سفر کا آغاز کیا۔

1915 میں ویڈل کے سمندر کی برف میں پھنس جانے کے بعد ڈوبنے والا لکڑی سے بنا یہ جہاز دہائیوں تک معمہ بنا رہا۔ اس جہاز کو ایک مہم کے دوران 3008 میٹر کی  گہرائی سے ڈھونڈا گیا۔ اینڈیورنس نامی یہ بحری جہاز انٹارکٹک ایکسپلورر ارنسٹ شیکلٹن کی ملکیت تھا۔

فاک لینڈ میری ٹائم ہیریٹیج ٹرسٹ کے مطابق جہاز اُس مقام سے جنوب میں تقریباً چار میل کی دوری پرملا ہے ۔ جو اس کے کپتان نے ریکارڈ کیا جبکہ اس کی حالت بہت اچھی ہے۔ مہم کے ڈائریکٹر کے مطابق اینڈیورنس کی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحیح و سالم ہے اور’اب تک لکڑی سے بنے جہاز کا عمدہ ترین ملبہ ہے۔ یہ عمودی حالت میں، صحیح اور شاندار طور پر محفوظ ہے۔ یہاں تک کہ آپ ’اینڈیورنس‘کو عین اس کے پچھلے حصے کے جنگلے کے نیچے سے دوسرے کنارے تک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ قطبی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔

مہم جو سر ارنسٹ 1901 سے 1917 کے درمیان قطب جنوبی میں برطانوی مہمات کی سربراہی کرنے کے بعد 20 صدی کے اوائل میں قومی ہیرو بن گئے تھے۔ اپنی آخری مہم کے دوران، وہ اور اینڈیورنس جہاز کا عملہ انٹارکٹیکا کو پہلی بار عبور کرنے کے لیے روانہ ہوئے لیکن اینڈیورنس خشکی تک نہ پہنچ سکا۔  برف کی موٹی تہہ میں پھنس گیا، جس کی وجہ اس میں سوار 28 لوگ بالآخر اسے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

10  ماہ تک برف میں پھنسے رہنے کے باوجود جہاز کا پورا عملہ زندہ واپس آنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس بات کو انسانی تاریخ میں بقا کی عظیم داستانوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے۔ تین کشتیوں میں سفر کے آغاز اور ’ایلیفنٹ‘ نامی ویران جزیرے تک پہنچنے سے پہلے ان لوگوں نے سمندر پر جمی برف پر سفر کیا اور اس دوران سیلز اور پینگوئنز کو بطور خوراک استعمال کیا۔ وہاں سے ارنسٹ شیکلٹن اور مٹھی بھر عملے نے تقریباً1300 کلومیٹر دور جنوبی جارجیا تک پہنچنے کے لی جیمز کیئرڈ لائف بوٹ پر سفرکیا، جہاں انہوں نے وہیلنگ سٹیشن سے مدد طلب کی۔

اپنی امپیریل ٹرانس آرکٹک مہم کی لندن سے روانگی کے دو سال بعد چوتھی مرتبہ مدد لینے کی کوشش میں شیکلٹن اگست 1916 میں ایلیفنٹ جزیرے سے باقی ماندہ عملہ واپس لانے میں کامیاب ہو گئے۔  اینڈیورنس 22 مہم نے تحقیقی مقصد کے لیے استعمال ہونے والے بحری جہاز ’ایس اے اگولہس دوم‘ پر سوار ہو کر اینڈیورنس کو تلاش کرنے کا کام کیا۔

مہم کے سربراہ ڈاکٹر جان شیئرز نے مہم کو ’غرقاب ہونے والے جہاز کی تلاش کا مشکل ترین کام‘ قرار دیا۔ انہوں نے تلاش کا کام مکمل کرکے ’قطبی تاریخ‘ رقم کر دی۔ جان شیئرز کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دنیا کے اس حصے میں اہم سائنسی تحقیق کی جو عالمی موسم اور ماحول کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔‘

’ہم نے بہت آگے جا کر تعلیمی پروگرام کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسے جہاز سے براہ راست نشر کیا گیا جس سے دنیا بھر سے نئی نسل کو اینڈیورنس 22 کے ساتھ رابطے اور قطب پر ہونے والے تلاش کے کام کی حیران کن کہانیوں سے متاثر ہونے کا موقع ملا اور یہ کہ انسان کیا حاصل کر سکتے ہیں اور جب وہ اکٹھے کام کرتے ہیں تو کن مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ سائنس دانوں نے حادثوں کا شکار ہونے والے معروف بحری جہازوں میں سے ایک اینڈیورنس نامی بحری جہاز کو ڈھونڈنے کے 107 برس بعد ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا ہے۔

اینڈیورنس 10 ماہ سے زیادہ عرصے تک سمندری برف میں پھنسا رہا تھا۔ اور اس کے عملے کا پیدل اور کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر ڈرامائی انداز میں لوٹنا اب ایک لوک کہانی کے طور پر سنایا جاتا ہے۔ یہ سمندر میں تین کلومیٹر یعنی 10 ہزار فٹ کی گہرائی پر ایک صدی سے زیادہ عرصے سے موجود ہ۔ دیکھنے میں اس کی حالت اب بھی ویسی ہے جیسے 107 سال قبل تھی۔

لکڑی کے جہاز کے تختے اب بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، حالانکہ اب اس کی حالت خستہ ضرور ہو گئی ہے۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ‘اینڈیورنس’ نام اس پر اب بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ بحری جہاز کو ڈھونڈنے والی ٹیم میں شامل بحری میٹرولوجسٹ مینسن باؤنڈ کا کہنا ہے کہ ‘کسی بھی مبالغہ آرائی کے بغیر میرے نزدیک میں نے اس سے بہتر حالت میں کسی بھی حادثے کا شکار بحری جہاز کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔’ مینسن کا 50 سال سے زیادہ عرصے کا خواب اب پورا ہو چکا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں مینسن نے بتایا کہ ‘یہ سمندر کی تہہ میں بالکل سیدھا کھڑا دیکھا گیا۔ یہ زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوا اور یہ بہترین شکل میں محفوظ ہے۔‘

بہت سے لوگوں نے اسے تلاش کرنے کا تہیہ کیا تھا اور کچھ نے کوشش بھی کی ہے لیکن اس خطے میں سمندری برف کی وجہ سے سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جان شیئرز اور ان کے ساتھیوں نے آخرکار اس کی کھوج لگائی حالانکہ اس حوالے سے ان کا آخری مشن ناکام رہا تھا۔ اپنی گذشتہ کوشش میں ناکامی کے بعد انھوں نے جہاز کی تلاش کے لیے اپنا سامان تبدیل کیا تھا۔ اس مرتبہ مختلف قسم کی آبدوزوں کی مدد لی گئی تھی۔

ڈاکٹر جان شیئرز نے کیمروں کے بحری جہاز تک پہنچنے کے لمحے کو ‘انتہائی حیرت انگیز’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ‘بحری جہاز کو پیش آنے والے حادثہ ایک بہترین کارنامہ ہے۔ ہم نے کامیابی کے ساتھ حادثوں کا شکار ہونے والے بحری جہازوں کی دنیا کی سب سے مشکل کھوج مکمل کر لی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس دوران ہمیں سمندری برف کے ہٹنے، برفانی طوفان اور منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ ہم نے وہ کر دکھایا ہے جسے لوگ ناممکن قرار دے رہے تھے۔’

جزیرہ نما انٹارکٹیکا پر واقع لارسن آئس شیلف کے بالکل مشرق میں، ویڈل سمندر کے اس حصے تک پہنچنا جدید جہازوں کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے۔جہاں سے یہ بحری جہاز ملا۔ ارنیسٹ شیکلٹن کا جہاز تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے۔ اسے انٹارکٹیکا کے ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ایک یادگار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حادثے کا شکار ہونے والے بحری جہاز پر زندگی کی بہتات ہے لیکن ایسی نہیں جو اس کو نقصان پہنچا سکے۔

ایسکس یونیورسٹی میں زیرِ سمندر پولر بائیولوجسٹ ڈاکٹر مشیل ٹیلر کا کہنا تھا کہ ‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بحری جہاز کی لکڑی کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ایسی آبی حیات جو ہمارے سمندروں کے دوسرے حصوں میں پائے جاتے ہیں وہ جنگلات سے پاک انٹارکٹیکا خطے میں نہیں پائے جاتے۔ اینڈیورنس ایک آسیب زدہ بحری جہاز نظر آتا ہے اور اس پر سمندر کی گہرائی میں موجود زندگی کی بہتات بھی دکھائی دیتی ہے۔

اس جہاز کو اس لیے اہمیت دی جا رہی ہے کہ یہ شیکلٹن کے اس بحری جہاز میں سفر کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔ بحر منجمد جنوبی یعنی انٹارٹیکا میں شیکلٹن کی یہ تاریخی مہم 1914 سے 1917 تک جاری رہی تھی اور اس کا مقصد پہلی مرتبہ برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم کو عبور کرنا تھا، لیکن اینڈیورنس راستے میں سمندری برف میں کھو گیا تھا۔

اس مہم کی شہرت پوری دنیا میں اس وقت پھیل گئی تھی جب شیکلٹن اور ان کے ساتھی نہ صرف زندہ رہے بلکہ حیران کن طور پر پیدل چلتے ہوئے اور چھوٹی کشتیوں کی مدد سے واپس آ گئے۔

ان کی یہ مہم کسی یادگار سے کم نہیں، اور اس کہانی میں یہ کشش بھی ہے۔ اس کی دوسری وجہ بحری جہاز کو ڈھونڈنے کا چیلنج بھی ہے۔ ویڈل سمندر مکمل طور پر برف سے ڈھکا ہوا ہے اور یہ وہی سمندری برف ہے جس کے باعث اینڈیورنس حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اس مقام تک پہنچنا ہی انتہائی مشکل ہے اور اس حوالے سے کھوج لگانا تو ایک علیحدہ بات ہے۔