متحدہ عرب امارات میں ہزاروں تارکین وطن بچے اسکولنگ اور طبی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پیدائشی سرٹیفکیٹ نہ ہونے کے باعث متحدہ عرب امارات میں ہزاروں بچوں کو تعلیم تک رسائی نہیں ۔ نہ ہی انہیں آج کے دور میں کوئی طبی سہولت میسر ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہزاروں تارکین وطن رہائشیوں کے بچے سکول جانے کےخواہش مند ہونےکے باوجود نہیں جا سکتے ۔ متحدہ عرب امارات سے نکلنے کے لئے اُن کے پاس نہ ہی ان بچوں کے پاس ویزا ہے نا ہی پاسپورٹ ۔
کئی خاندانوں اور اکیلی ماوں کے پاس ہسپتالوں کے ہزاروں ڈالر بل ادا کرنے کی سکت نہ ہونا۔ ان بچوں اس کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ کی عدم موجودگی کی بڑی وجہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ خلیجی ملک میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو حال ہی میں قانونی حیثیت دی گئی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اکیلی ماؤں کے بچوں کو بڑی حد تک پیدائشی سرٹیفکیٹ سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فلپائن کے تارکین وطن کمیونٹی میں غیر دستاویزی بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ اماراتی قوانین میں تارکین وطن کو تحفظ حاصل نہیں جس سے وہ پاسپورٹ بھی بنوانے سے محروم ہیں۔
اگرچہ ہسپتالوں کے لیے غیر ادا شدہ بلوں پر پیدائشی دستاویزات کو روکنا غیر قانونی ہے۔ لیکن یہ عمل اکثر چیلنج نہیں ہوتا ۔والدین ڈرتے ہیں ۔ اگر پولیس کا آغاہ کیا تو کہیں انہیں اپنے قرضوں پر قانونی نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔
متحدہ عرب امارات میں ہر 9 میں سے ایک فرد غیر ملکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پسماندہ ملکوں سے ہے ۔ اور وہ بہت ہی کم تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں ۔ کورونا کی عالمی وبائی مرض کے بعد ملازمتوں میں کمی نے تارکین وطن کو بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
تارکین وطن کے سفری دستاویزات ان کے کمپنی مالکان اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ۔ اس وجہ سے بے وطن یہ لوگ اپنے گھر واپس بھی نہیں جا سکتے ۔ متحدہ عرب امارات کے شہریوں اوراعلی عہدوں پر کام کرنے والے تارکین وطن کو اعلیٰ طرز زندگی کا معیار ، پرائیوٹ تعلیم اور طبی سہولتیں میسر ہیں۔
فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود یہاں پر کام کرنے والے مشکلات سے دو چار ہیں ۔ افریقا، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیاء سےآئے کم تنخواہوں پر کام کرنے والے افراد مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں اُجرت پوری ملتی ہے نہ ہی انہیں دیگرسہولت فراہم کی جاتی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جب ان کم اجرت والے تارکین وطن کارکنوں کو پیش مسائل ۔ اور غیر دستاویزی بچوں کے بارے میں اماراتی حکومت کے میڈیا آفس کو سوالات بھیجے گئے ۔ تو حکام کی جانب سے جوابات دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔