مقبول اور گیارہ فروری کا کشمیر

Spread the love

مقبول بھٹ کے نظریات کا پرچار اتنا کامیاب تھا اور ان کی اپنے مقصد کے ساتھ لگن اتنی زیادہ تھی کہ پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد وہ زیادہ "مقبول” بن گئے۔

مقبول بھٹ
Spread the love

کشمیر کے پہلے علیحدگی پسند رہنما مقبول بھٹ کو اندرا گاندھی نے دہلی کی تہاڑ جیل میں 11 فروری 1984 ۔کو پھانسی دی تھی

بھارت کے مقبول بھٹ کے نظریات سے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا جسد خاکی بھی لواحقین کے حوالے نہیں کیا گیا۔ وہ آج بھی تہاڑ جیل میں مدفون ہیں۔ کئی ملکوں میں بٹا کشمیری معاشرہ ہر سال ان کی برسی کو عقیدت سے مناتا ہے۔

مقبول احمد بھٹ جتنی شہرت کسی اور کشمیری کے حصے میں نہیں آئی۔ سرحد کے دونوں جانب یوم مقبول بھٹ کو عقیدت سے منایا جاتا ہے۔

11 فروری 1984 کی علی الصبح اندرا گاندھی کی حکومت نے طویل عرصے سے جاری عدالتی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیری علیحدگی پسند مقبول بھٹ کو بدنام زمانہ دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا۔ حکام نے نہ صرف مقبول بھٹ کی لاش انکے اہل خانہ کے حوالے کرنا گوارا کیا بلکہ انہیں جیل کے احاطے میں ہی غیر رسمی طور پر دفن کردیا گیا۔

مقبول بھٹ کو بھارتی سپریم کورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی کیونکہ ان پر الزام تھا کہ ان کی جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے برطانیہ میں ہندوستانی سفارت کار رویندر مہاترے کو اغوا اور قتل کیا۔

پھانسی گھاٹ پر جھولنے کے چند ثانیوں بعد ہی مقبول بھٹ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی مگر روح نکلنے کے ساتھ ہی ان کے مزاحمتی کردار نے تاریخ کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا کہ خود تاریخ کا چہرہ بھی لہولہان ہو گیا۔ ان کی پھانسی سے ایسا شور اٹھا جو آج سینتیس سال بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ان کی آواز خاموش ہوئی تو شور اور تلاطم کا ایسا طوفان برپا ہوا جس کی چنگھاڑ سے کشمیر کے بلند و بالا پہاڑ بھی سہمے ہوئے نظر آتے ہیں۔  

مقبوضہ اور آذاد کشمیر کی اکثریت مقبول بھٹ کو ’شہید کشمیر‘ اور کشمیری علیحدگی پسند کا پہلا ’شہید‘ مانتی ہے۔ اگرچہ ان کا ایک متحدہ اور خودمختار کشمیر کا وژن (بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر) آج کے علیحدگی پسندوں کے مطالبات کے بالکل برعکس ہے، لیکن مقبول بھٹ کی کشمیریوں کی شعوری زندگی میں موجودگی کی بڑی وجہ ان کی مقصد کے لئے شہادت ہے۔

اپنے مقصد کے لیے مقبول بھٹ 1950 کی دہائی کے آخر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے، پاکستان پہنچے، یہاں الیکشن بھی لڑا، اور یہیں علیحدگی پسند جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔ جماعت کو منظم کرنے مقبوضہ کشمیر واپس گئے لیکن بھارتی ایجنسیوں نے پکڑ لیا اور سری نگر جیل میں مقید ہوئے۔ آخر کار سری نگر کی جیل سے فرار ہو کر پاکستان واپس آ گئے۔ دوبارہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے تو پکڑے جانے پر پھانسی چڑھا دئیے گئے۔

اپنی زندگی کے دوران، مقبول بھٹ نے کشمیریت کا پرچار کیا، یہ پرچار اتنا کامیاب تھا اور ان کی اپنے مقصد کے ساتھ لگن اتنی زیادہ تھی کہ پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد وہ زیادہ "مقبول” بن گئے۔ ان کو ناکام بنانے میں آذاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی اس وقت کی قیادت کا بھی بھرپور کردار ہے۔

جنہوں نے طاقت کے ایوانوں کے سامنے مقبول بھٹ کو ایک ایسے روپ میں پیش کیا جو عوام کو بغاوت پر اکسانا چاہتا ہے۔

اس لئے دونوں ملکوں کو وہ اپنے لئے خطرہ محسوس ہوئے۔ مرکزی دھارے میں شمولیت جیسی اصطلاحیں بھی مقبول بھٹ کا راستہ روکنے کے لئے گھڑی گئیں۔

کیونکہ ان کا بیانیہ عوامی پذیرائی حاصل کر رہا تھا جسے روک کر اسلام آباد اور دہلی کے سامنے خود کو "حلال” ثابت کرنا مقصود تھا۔

میڈیا نے بھی ان ابن الوقت سیاستدانوں اور طاقت کے مراکز کا بھرپور ساتھ دیا۔ بھارت کے مؤقر جریدے انڈیا ٹوڈے نے مقبول بھٹ پراپنی کور اسٹوری میں کہا تھا، "بٹ اپنے آبائی جموں و کشمیر کو "آزاد” کرانے کے لئے صرف دہشت گردی پر یقین رکھتے تھے۔

1966 میں بھٹ کی پہلی گرفتاری کے دوران، پولیس نے ان سے ہندوستان کے خلاف ایک "اعلان جنگ” کا مسودہ برآمد کیا تھا، یہ مسودہ انہوں نے پرجوش انگریزی نثر میں لکھا تھا۔

مقبول بھٹ کی ابتدائی زندگی

1938 میں مقبول بھٹ جموں و کشمیر کے گاؤں تریہگام میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے، مقبول بھٹ ایک جاگیردارانہ حکمرانی کے دور میں پلے بڑھے، جب کشمیر ڈوگروں کی ملکیت تھی۔ انہوں نے مذہبی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ اگرچہ ان کی سیاست مذہبی قوم پرستی سے عاری تھی، لیکن وہ اپنی موت تک اسلام پر بھرپور طریقے سے عمل کرتے رہے۔

1945-46 میں ان کے گاؤں کے جاگیردار نے اپنے گاؤں پر چھاپہ مارنے کا حکم دیا کیونکہ وہ فصل کم ہونے کی وجہ سے راجہ کو ادائیگی کرنے میں ناکام رہا۔ گاؤں والوں نے جاگیردار سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی التجا کی لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تب گاؤں کے تمام بچوں کو جاگیردار کی گاڑی کے سامنے لیٹنے کو کہا گیا۔ مقبول بھٹ ان بچوں میں سے ایک تھے جنہوں نے گاڑی کے سامنے لیٹ کر جاگیردار کو اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور کیا۔

مقبول بھٹ کا سیاسی شعور 1947-48 کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے دوران تیار ہوا، ان واقعات کے علاوہ، سری نگر اور نئی دہلی کے درمیان وسیع تر سیاسی جڑاؤ بھٹ کے سیاسی نظریات کی تشکیل میں ایک عنصر ثابت ہوا۔

1953 تک، شیخ عبداللہ-جواہر لال نہرو معاہدہ ٹوٹ چکا تھا، اور شیخ عبداللہ کو ہندوستانی ریاست کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سری نگر اور دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش نے مقبول بھٹ کے کشمیریوں کی آزادی کے تصور کو جداگانہ حیثیت دی۔

پہلے پہل اپنے نوعمر ساتھیوں کے ساتھ، مقبول بھٹ نے چار مرتبہ پر ایل او سی کو پار کرکے آذاد کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ مقبول بھٹ اپنے ساتھیوں کو ایک لائن میں بٹھاتے اور پاس موجود ایک چھوٹے سے بلیک بورڈ پر کشمیر کا نقشہ کھینچ کر سمجھاتے کہ ہم سب کیسے غلام ہیں۔

1957 میں شیخ عبداللہ کو رہا کیا گیا تو مقبول بھٹ اس وقت بی اے کے اسٹوڈنٹ تھے اور ایک علیحدگی پسند گروپ کے طلباء ونگ کی سربراہی کر رہے تھے۔ عبداللہ کی رہائی پر اس طلبا ونگ نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے اور اس کے نتیجے میں اسٹوڈنٹ ونگ سمیت علیحدگی پسند عناصر کے خلاف بھارتی فوج نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ 29 اپریل 1958 کو شیخ عبداللہ دوبارہ گرفتار ہوئے تو مقبول بھٹ گرفتاری سے بچنے کے لیے زیر زمین چلے گئے۔ اس کے فوراً بعد، مقبول بھٹ اپنے چچا عزیز بھٹ کے ساتھ پاکستان چلے آئے۔

کچھ سال بعد، مقبول بھٹ پاکستان کے شہر پشاور آ گئے۔ جہاں انہوں نے اردو ادب پڑھنے کے لیے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ مقبول بھٹ نے صحافت، سیاست اور سیاسی علیحدگی پر پڑھنا شروع کیا۔ الجزائر، فلسطین اور ویتنام میں مسلح مزاحمت سے متاثر ہو کر مقبول بھٹ نے آخر کار قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ایک مقامی اخبار ’انجام‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ بطور صحافی، بھٹ نے اپنا ایک میگزین خیبر ویکلی بھی شروع کیا، لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسے جلد ہی بند کرنا پڑا۔

1961 میں بھٹ نے راجہ بیگم سے شادی کی اور ان کے دو بیٹے جاوید اور شوکت ہوئے۔ اگرچہ راجہ بیمار ہوئیں اور انتقال کر گئیں، مقبول بھٹ نے دوسری شادی زکیرہ بیگم نامی خاتون سے کی جہاں سے ان کی ایک بیٹی لبنیٰ پیدا ہوئیں۔

مقبول بھٹ نے 1961 میں سیاست میں بھی قدم رکھا۔ 1961 کے پاکستان کے بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں، انہوں نے پشاور سے کشمیریوں کی نشست جیتی۔ 1962-63 کے سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کی بات چیت کے دوران، مقبول بھٹ کو پاکستانی سیاسی اور بیوروکریٹک طبقے سے مایوسی ہونا شروع ہو گئی۔

مایوسی نے انہیں مرکزی دھارے کی سیاست سے دور کر دیا اور ان میں یہ یقین پیدا ہوا کہ اگر آزادی حاصل کرنی ہے تو کشمیریوں کو خود ہی حاصل کرنا ہو گی۔

"کسی بھی انقلاب کا مطالعہ کریں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مظلوم خود ہیں جنہیں سب سے آگے ہونا چاہیے اور جب تک وہ کھڑے نہیں ہوتے اور لڑتے نہیں تو کچھ نہیں ہوتا،” مقبول بھٹ نے مبینہ طور پر ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا۔

25 اپریل 1965 کو، بھٹ اور ان کے ہم وطنوں نے محاذ رائے شماری جموں کشمیر Plebiscite Front (JKPF) کی بنیاد رکھی۔ وہ اس کے پبلک سیکرٹری منتخب ہوئے۔ جے کے پی ایف آذاد کشمیر میں پہلی کشمیر نواز سیاسی تنظیم تھی، اور آنے والے وقت میں آزادی کے زیادہ تر حامی گروپوں نے اس کے بطن سے جنم لیا۔

لیکن مقبول بھٹ نے جلد ہی اپنے کامریڈ امان اللہ خان کے ساتھ مل کر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قیام کے ذریعے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔جے کے ایل ایف کا مقصد مسلح جدوجہد سمیت ہر قسم کی جدوجہد کرکے ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو اپنی مادر وطن کے واحد مالک کے طور پر ریاست کے مستقبل کا تعین کرنے کے قابل بنانا تھا۔

سری نگر جیل سے فرار کی کہانی

1966 میں مقبول بھٹ واپس مقبوضہ کشمیر گئے اور جے کے ایل ایف کی کارروائیاں شروع کیں۔ مقبول بھٹ کی کال پر کشمیری نوجوان جے کے ایل ایف کی صفوں میں شامل ہونے لگے، ان کی کارروائیاں بھارت کے لئے باعث تشویش ہونے لگیں تو غاصب فوج نے جے کے ایل ایف کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

1966 میں ہی مقبول بھٹ گرفتار ہوئے اور ان پر سی آئی ڈی اہلکار کے قتل کا الزام لگایا گیا۔ کیس دو سال بعد ختم ہوا، مقبول بھٹ پر 1943 کے اینمی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ اس دوران انہیں سری نگر کے باغ مہتاب میں واقع انٹیروگیشن سنٹر بھی منتقل کیا گیا۔ 8 دسمبر 1968 کو مقبول بھٹ اور ان کے ساتھیوں امیر احمد اور غلام یاسین نے 38 فٹ لمبی سرنگ کھودی اور جیل سے فرار ہو گئے۔

اس کے بعد ان لوگوں نے سینکڑوں کلومیٹر پیدل سفر کیا اور دوسری بار آذاد کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں پہنچ کر ایک مختصر نظر بندی کے بعد، مقبول بھٹ نے جے کے ایل ایف کی کارروائیوں کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔  

کہا جاتا ہے کہ مقبول بھٹ نے انڈین ایئر لائنز کی پرواز 101 ’گنگا‘ کو لاہور کے لیے ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ہائی جیک کیے گئے ’گنگا‘ طیارے کو لاہور لایا گیا، اور مسافروں کو واپس بھارت بھیج دیا گیا، تاہم ہائی جیکروں نے جہاز کو اڑا دیا۔ اس ہائی جیکنگ سے وہ ایک غیر متزلزل رہنما کے طور پر سامنے آئے،،، بھٹ کو عدالت نے بری کر دیا، لیکن جے کے ایل ایف کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔

مقبول بھٹ پر تحقیق شدہ لٹریچر کی کمی کا مطلب ہے کہ جموں و کشمیر کی سیاست کے وسیع تناظر میں ان کی زندگی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ چندو سریدھرن، ایک معلم اور سابق بھارتی صحافی جنہوں نے ہاشم قریشی سمیت کئی کشمیری عسکریت پسندوں کا انٹرویو کیا ہے، کے مطابق "مقبول بھٹ پر کوئی منظم مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم اس کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ بنیادی طور پر کہانیوں سے آتا ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنسی کے چیف ایس اے دولت نے اپنی کتاب میں لکھا ہے "مقبول کے مطابق، عالمی برادری کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت نہیں کرے گی، لیکن وہ دونوں طرف کی آزادی کی حمایت کرے گی”۔

1987 کے بعد شروع ہونے والی تحریک آذادی میں اب تک کشمیری ہزاروں جانیں گنوا چکے ہیں لیکن مقبول بھٹ کی مقبولیت اور جموں و کشمیر کی راہ آزادی میں کردار کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنی زندگی کے دوران کشمیر میں مقبول شخصیت نہ تھے۔ انہوں نے اپنا زیادہ وقت پاکستان میں گزارا۔ یہ تب ہی ہوا جب انکو پھانسی دی گئی اور اس کے بعد وہ کشمیریوں کی مزاحمت کا استعارہ بن گئے۔

بھٹ کی پھانسی

پاکستانی عدالت سے بری ہونے کے بعد ایک بار پھر لیلائے آذادی کے اس مجنوں نے جے کے ایل ایف دوبارہ قائم کی۔ 1976 میں مقبوضہ کشمیر میں داخلے کے بعد گرفتار ہو گئے۔ 1978 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت کو بحال کیا اور انہیں نئی دہلی میں واقع تہاڑ جیل منتقل کر دیا گیا۔ جیل میں مقبول بھٹ کا زیادہ تر وقت پڑھائی میں گزرتا اور وہ اپنے ساتھیوں اور جیل حکام سے کشمیری سیاست کے بارے میں گفت و شنید کرتے رہتے۔ 3 فروری 1984 کو بھارتی سفارتکار مہاترے کے قتل کے بعد اندرا گاندھی کی حکومت نے فوری طور پر مقبول بھٹ کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ بھٹ کو آٹھ دن بعد پھانسی دی گئی۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے پھانسی کی دستاویز پر زبردستی دستخط لئے گئے کیونکہ مقبول بھٹ کے خلاف مقدمہ اب بھی عدالت میں زیر التوا تھا اور اس پر بحث جاری تھی۔  ہاشم قریشی کے مطابق، سفارت کار کا قتل مقبول بھٹ کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا.