اسلام آباد ہائی کورٹ نے آرڈیننس کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات معطل کردئیے ہیں ، عدالت نے آرڈیننس کے تحت الیکشن کمیشن کو کام سے روک دیا ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سی ڈی اے مزدور یونین، سی ڈی اے آفیسرز ایسوسی ایشن اور لیگی رہنما سردار مہتاب کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی، درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی، قاضی عادل، کاشف ملک و دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔
قاضی عادل نے دلائل دیئے کہ الیکشن ہوجائے تو پھر بچا کیا، پھر آرڈیننس ختم کریں گے،جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس اگر ختم ہوجائے تو کہانی ختم ہوگی،عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس سٹیج پر آرڈیننس کو معطل کیا جائے ؟
قاضی عادل نے دلائل دیئے کہ نہیں اس وقت آرڈیننس معطل کرنے کی ضرورت نہیں مگر ایکسرسائز کو روکا جائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آرڈیننس اگر معطل نہیں کرتے تو سسٹم کیسے معطل کرے؟ قاضی عدال کا کہنا تھا کہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس ہی معطل کیا جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایسے کیسے آرڈیننس کو معطل کیا جائے کوئی قانون تو بتائیں، قاضی عادل نے دلائل دیئے کہ اگر الیکشن ہوجاتا ہے اور جس دن آرڈیننس ختم ہوگا تب کیا ہوگا ؟ عدالت درخواست گزار وکلا کو اپنی اپنی درخواستیں پڑھنے کی ہدایت کر دی۔
کاشف ملک نے موقف اپنایا کہ سی ڈی اے آرڈیننس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ وہ تو وفاقی حکومت نے دیکھنا ہے کہ سی ڈی اے آرڈیننس کو کب سٹرک ڈاؤن کرنا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی بنایا گیا وہاں سے کون آیا ہے ؟اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ 2015 ایکٹ کے تحت جب الیکشن ہوا تب اسلام آباد کی ابادی ساڑھے آٹھ لاکھ ابادی تھی، اس وقت اسلام آباد کی آبادی 2 ملین ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ وزارت داخلہ 10 دن میں ڈیٹا دے نہیں تو ہم 2015 ایکٹ کے تحت الیکشن کرائیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ الیکشن کمیشن سے ڈر گئے ؟ وفاقی حکومت نے کس صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرائے؟ اس وقت ملک میں جنگ جاری ہے اور کوئی بھی ادارہ کام نہیں کررہا تب آرڈیننس جاری ہوتا ہے، نارمل حالات میں کیوں آرڈیننس جاری کیا گیا ؟
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ کو دس کا وقت دیا تھا کہ ہم 2015 ایکٹ کے تحت انتخابات کریں گے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیسا الیکشن کمیشن ہے کہ آبادی کا تعین کیا ووٹرز کا نہیں کیا، جب آبادی بڑھ جاتی ہے تو حلقہ بندیاں ہوجاتی ہیں،اسلام آباد کا کوئی والی وارث نہیں، 9 ماہ ہو گئے ابھی تک الیکشن نہیں ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کیس کی مزید سماعت 3 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔