ایران جوہری مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں ۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے امید ظاہر کی کہ اگر بڑے اختلافات باقی بھی رہیں تو بھی جلد نتیجہ نکلے گا ۔ دونوں ممالک کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ امریکا معاہدے میں واپس آجائے اور ایران اس معاہدے پر عمل درآمد دوبارہ شروع کردے۔
جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایران پر عائد پابندیوں پر استثنیٰ بحال کردیاہے، ، پابندیوں پر استثنیٰ کی بحالی سے ایران، چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکا سمیت کئی ممالک کے ایک گروپ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں واپسی کے متعلق ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں مدد ملے گی۔
امریکا اور ایران کے درمیان اپریل سے اب تک ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کے 8 دور ہوچکے ہیں، ایک ہفتے کے وقفے سے یہ دور دوبارہ ویانا میں ہو رہا ہے، ایران اور امریکا کے نمائندےویانا میں موجود ہیں جلد مذاکرات کا اگلا دورجلد شروع ہو رہا ہے۔
ایران کا موقف ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں ایک اچھے معاہدے تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ مذاکرات میں جلد بازی نہیں کرے گا ، جعلی ڈیڈ لائن اصولوں اور سرخ لکیروں کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔
دوسری جانب ویانا میں جوہری مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے پہلے ہی ایران نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے.

ایران کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ایک ہزار 450 کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ میزائل ’خیبرشکن‘ میزائل شیلڈ سے پارہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ میزائل کولانچ کرنے کے لئے سولڈ فیول کا استعمال کیا گیا ہے ۔ بیلسٹک میزائل ’خیبرشکن‘ مکمل طورپرایران میں تیارکیا گیا ہے۔
خبرایجنسی کے مطابق ایران کی جانب سے جس میزائل کا تجربہ کیا گیا وہ اسرائیل اور امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔