چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سبکدوش

Spread the love

پاکستان کے چیف جسٹس مدت ملازمت پوری ہونے پرسبکدوش

Spread the love

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد مدتِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہو گئے ، انہوں نے 2 سال 2 ماہ 10 دن چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فرائض انجام دیئے، وہ ملک کے ستائیسویں چیف جسٹس بنے تھے۔

چیف جسٹس گلزار احمد 2002ء میں سندھ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے ، وہ 2007ء میں پی سی او پر حلف نہ لینے کے باعث معطل کیے گئے تھے۔

چیف جسٹس گلزار احمد 2011ء میں بحال ہوئے اور سپریم کورٹ میں بطور جج ان کی تعیناتی ہوئی۔

چیف جسٹس گلزار احمد 10 سال بطور سپریم کورٹ جج اور 2 سال 2 ماہ 10 دن بطور چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔انہوں نے 21دسمبر2019کو ملک کے 27ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزاراحمد نے آخری دن سندھ میں بلدیاتی اختیارات کے کیس کا آخری فیصلہ سنایا ،بلدیاتی اختیارات کیلئے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے 2017 میں درخواستیں دائر کی تھیں، سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر 2020 کو درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

چیف جسٹس گلزاراحمد کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزازمیں فل کورٹ ریفرنس

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز اور بار کے نمائندے شریک ہوئے۔

سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو اسکینڈلائز کرنے کا راستہ ہوگا،مزدچیف جسٹس آف پاکستان

 نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطاء بندیال نے خطاب میں کہا کہ سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو اسکینڈلائز کیا جاتا ہے جس کا راستہ روکنا ہو گا، ججز کو سکینڈلائز کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر مہذب اور غیر آئینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ججز کو اسکینڈلائز کرنے کے معاملے پر بار سے مدد مانگیں گے، میں دہرا رہا ہوں مسٹر احسن بھون کہ بار سے مدد مانگیں گے۔

نامزد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بطور 27 ویں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو دو چیلنجر کا سامنا رہا، پہلا بڑا چیلنج کورونا وباء کا تھا جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں مشکلات پیش آئیں تاہم انھوں نے ایک دن کے لیے بھی عدالت بند نہیں ہونے دی۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا چیلنج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور اس حوالے سے درخواستیں تھیں ، جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں 60 سے زائد سماعتیں کیں اور دن رات کام کیا، اس وجہ سے زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا، ان زیر التوا کیسز کو کم کرنے کے لیے ججز نے عوامی رائے کے برعکس سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی کام کیا۔

انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ججز کو اسکینڈلائز کرنے کے معاملے پر بار سے مدد مانگیں گے، میں دہرا رہا ہوں مسٹر احسن بھون کہ بار سے مدد مانگیں گے۔

محنت اور ایمانداری سے خدمات سرانجام دیں،چیف جسٹس گلزار احمد

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 20 سال تک بطور جج اپنی خدمات محنت اور ایمانداری سے سرانجام دینے کے بعد آج ریٹائرڈ ہو رہا ہوں، بحثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسسز کے فیصلے کئے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی ، اختیارات میں توازن ریاستی اداروں کے دائرہ اختیار کو یقینی بناتا ہے۔ سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تقرری سے نئی تاریخ رقم ہوئی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور ججز کے احتساب کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے،عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے۔

ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا،اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی بالادستی کے لیے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہو گا، کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا، بار اور بنچ میں ایسی شخصیات تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007ء میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی، جسٹس گلزار احمد کے دور میں عدلیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے یہ بھی کہا کہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران عدالت ایک دن بھی بند نہیں ہوئی، پھر بھی مقدمات کا بوجھ 53 ہزار سے بڑھ گیا۔