اسلام آباد ہائی کورٹ، اداروں کے نام پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کیسز میں اٹارنی جنرل سے معاونت طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا ایکٹ کیس
Spread the love

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اداروں کے نام پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کیسز کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میری رائے تھی کہ یہ سوسائٹیاں تو ہونی ہی نہیں چاہیں لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے، آئی بی اور ان اداروں کا کام تو عوام کی خدمت ہے، یہ ادارے اپنے اختیارات کو اس مقصد کے لئے تو استعمال نہیں کر سکتے، یہ عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے، ایف آئی اے کا کنٹریکٹر سے تنازعہ ہوا اور خود ہی ایف آئی آر درج کر دی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ وہ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کا دفاع نہیں کریں گے ، عدالت مجھے نوٹس دے میں تحریری جواب جمع کراؤں گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ ایف آئی اے کو سپریم کورٹ نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تحقیقات اور تفتیش سونپ رکھی ہے ،ایف آئی اے کی اپنی سوسائٹی ہے جس میں ڈائریکٹر اور دیگر میٹنگز کرتے ہیں ، یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، یہ کیسے ختم ہو گا؟ صرف نام تبدیل کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ ہم عوام کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں، بزنس کرنے کے لیے نہیں۔ ملازمین کے نام پر بزنس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟

چیف جٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے ایک کنٹریکٹر کے خلاف خود ہی ایف آئی آر بھی درج کر لی، یہ پبلک سرونٹ کا مس کنڈکٹ ہے کہ وہ پرائیویٹ ریئل اسٹیٹ کا بزنس بھی کریں، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متعلقہ سوسائٹیز کو نوٹس کر کے پوچھیں کہ وہ اپنے دفاع میں کیا کہتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جن لوگوں کو عوام کی خدمت کے لیے اختیار دیے گئے وہ سوسائٹیز کی آڑ میں ریئل اسٹیٹ بزنس کیسے کر سکتے ہیں؟ سرکاری ملازمین کو جس کام کے لیے بھرتی کیا گیا وہ صرف وہی کام کر سکتے ہیں، ڈی جی اور حاضر سروس افسران سوسائٹی کے معاملات چلاتے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت نے یقینی بنانا ہے کہ جو لوگ عوام کی خدمت کے لئے ہیں وہ خدمت کریں، اسی وجہ سے شہر میں جرائم بڑھ گئے ہیں، حکومت کو اتنا تو طے کرنا چاہیے کہ یہ مس کنڈکٹ ہے۔  چیف جسٹس نے کہاکہ آئین بالکل واضح ہے، رولز آف بزنس موجود ہیں، وفاقی حکومت کو اس معاملے کو دیکھنا چاہئے، عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔