قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس

Spread the love

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا فیض اللہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر بریفنگ دی، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک پر حکومت پاکستان کا کنٹرول برقرار رہے گا، حکومت بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام نامزد کرے گی، بورڈ ارکان کے تقرر کی منظوری کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان مادر پدر آزاد نہیں ہوگا۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے کہا کہ آپ اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لیں گے، حکومت نے ویسے بھی ڈھائی سال سے مرکزی بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا، البتہ پہلے سے 7 ہزار ارب روپے قرضے کا حجم موجود ہے، اسٹیٹ بینک حکومت کے کنٹرول میں ہی رہے گا۔

وفاقی وزیرخزانہ نے بتایا کہ مارچ میں 50 کروڑ ڈالر کے بدلے بعض سخت شرائط مانی گئیں، تاہم موجودہ بل اس سے بہت حد تک مختلف ہے،

کمیٹی کے رکن علی پرویزملک نے کہا کہ ترمیمی بل کے ذریعے گورنر اسٹیٹ بینک کو بہت زیادہ با اختیار بنا دیا گیا، سیکرٹری خزانہ کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے تھا، وزیر خزانہ کے ہاتھ کاٹ کر گورنر کو تو نہ دیئے جائیں، اسٹیٹ بینک افیشلز کو نیک نیتی سے کیئے گئے اقدامات پر قانونی  تحفظ دینا درست نہیں ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک میں لوگوں کی تعیناتیوں کا اختیار حکومت کے پاس ہو گا، آج آئی ایم ایف پروگرام میں اس لیئے ہیں کہ یہ ہماری ضرورت ہے، یہ ایک نیا سفر ہے، اگر کامیابی نہ ہوئی تو ہم ایک خودمختار ریاست ہیں۔

گورنراسٹیٹ بنک رضا باقر کی کمیٹی کو بریفنگ

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کمیٹی کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ گورنر اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف میں کام کرتا رہا ہو، پہلے بھی ایسے گورنر اسٹیٹ بنک رہے ہیں جو پہلے انٹرنیشنل مالیاتی اداروں میں کام کرتے ہیں،میرے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں ہے۔

رضا باقر کا کہنا تھا کہ ایک تاثر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کہ کہنے پر سارے فیصلے ہو رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ آئی ایم ایف کہ کہنے پر فیصلے ہوتے ہیں، اسٹیٹ بنک نے نیشنل انٹرسٹ اور روزگار کی فراہمی کے لئے کئی پروگرام شروع کیے، آئی ایم ایف نے ہمارے کئی پروگرامز سے اختلاف کیا لیکن ہم نے شروع کیے، یہ تاثر درست نہیں کہ ایک ادارے کو کسی عالمی ادارے کو بیچا جا رہا ہے ۔

رکن کمیٹی احسن اقبال کی گفتگو

کمیٹی کے رکن احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں اسٹیٹ بنک بل کا شق وار جائزہ لیا جائے، بل میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بنک کا فسکل اور مانیٹری پالیسی کا عملہ مارکیٹ کے مطابق تنخواہیں لے گا، وزارت خزانہ کے فسکل پالیسی کے اسٹاف کا کیا قصور ہے، وزارت خزانہ کے عملے کو بھی اپنی تنخواہیں خود طے کرنے کا اختیار دے دیا جائے، بل میں کئی چیزیں ایسی ہیں جس پر کہا جا رہا ہے کہ بعد میں اکثریت کے ذریعے ختم کر دیا جائے گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر ڈپٹی گورنر کی نامزدگی کا اختیار گورنر کے پاس ہے تو تعیناتی کا اختیار حکومت کے پاس نہیں رہتا، حکومت تعیناتی کے لئے گورنر کے ناموں کی محتاج رہے گی، گورنر اسٹیب بنک کی 5 سالہ مدت کے بہت 5 سال کی مہلت بہت زیادہ ہے، گورنر کی پہلی مدت 3 سال جبکہ 1 سال کے لئے مزید ایکسٹینشن ہونی چاہیئے، اسٹیٹ بنک کے اندر ہی گورنر اور ڈپٹی گورنر کی تنخواہیں طے کی جائیں گی ، گورنر کی تنخواہ ایک کروڑ اور سیکرٹری خزانہ کی تنخواہ 3 لاکھ رکھنا نا انصافی ہو گی۔

قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 پاس کر لیا ہے۔

وزیرخزانہ شوکت ترین کی میڈیا سے گفتگو

وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جنوری کے آخری ہفتے پھر جائیں گے، کوشش ہوگی دونوں بلز جلد ازجلد پارلیمنٹ سے منظور کرالیں گے، قانونی بلز پر اعتراضات اٹھانا اپوزیشن کا کام ہے، اعتراضات اپوزیشن نہیں اٹھائے گی تو کون اٹھائے گا، گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت کے دورانیے پر آئی ایم ایف سے بات کریں گے۔

وزیر خزانہ نے گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں 5 سالہ توسیع نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ترمیمی بل کے تحت مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے