بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے نیا حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا ،ایک بار پھر معروف مسلمان خواتین کے نام نیلامی کے لئے ایک انٹرنیٹ ایپ پر ڈال دیئے ہیں ، بھارتی انتہا پسندوں نے نئی ایپلی کیشن کا نام ’’بلی بائی‘‘ رکھا ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ ایپلی کیشن نئی ایپلی کیشن مائیکروسافٹ کے سافٹ ویئر شیئرنگ پلیٹ فارم ’گِٹ حب‘ پر بنائی گئی،اس میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، کشمیری صحافی قرۃ العلین رہبر، بھارتی صحافی عصمت آراء ،حبہ بیگ ،صائمہ سمیت 100 مسلمان خواتین کے نام شامل ہیں۔
صحافی عصمت آراء نے ٹوئٹ کیا کہ انہیں کے کسی دوست نے ’بلی بائی‘ نامی ایپلی کیشن کا اسکرین شاٹ بھیجا، جس میں ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسردگی کی بات ہے کہ بحیثیت مسلمان عورت آپ کو نئے سال کا آغاز ڈر اور نفرت کے احساس کے ساتھ کرنا پڑتا ہے، یقیناً میں اکیلی نہیں جسے ’سُلی ڈیلز‘ کے اس نئے ورژن میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔عصمت آراء کی جانب سے شیئر کئے جانیوالے اسکرین شاٹ پر لکھا ہے ’یور بُلی بائی آف دی ڈے از‘ اور نیچے ان کی تصویر لگی ہے۔
عصمت آرا نے دلی پولیس کے سائبر سیل میں سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی بولی لگانے کے خلاف شکایت درج کرائی لیکن ان کا کہنا ہےکہ پولیس نے ایف آئی آر درج تو کرلی ہے لیکن تعزیرات ہند کی کن شقوں کے تحت درج کی ہے اس کا ابھی علم نہیں۔
معروف صحافی اور ریڈیو جاکی صائمہ نے ٹویٹ کیا کہ ’سُلی ڈیلز کی طرح اس قابل نفرت بُلی ڈیلز میں مجھ سمیت بہت سی مسلم خواتین کا نام ہے۔ یہاں تک کہ نجیب کی والدہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ انڈیا کے شکستہ نظام انصاف کا غماز ہے۔ کیا ہم خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ ملک بنتے جا رہے ہیں؟
صحافی حبہ بیگ نے بھی انتہا پسندوں کی جانب سے نام فروخت کےلیے پیش کرنے کی ٹوئٹر پر تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ 6ماہ میں دوسری بار مجھے آن لائن بیچا گیا، حکام کب جاگیں گے،حبہ بیگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایف آئی آر کی حدتک اندراج نہیں چاہتے، وہ ملزمان کو گرفتار سخت سزا دی جائے تاکہ انہیں تیسری بار اس قسم کی انتہا پسندی کی سازش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
واضح رہے کہ ’سُلی‘ ایک ہتک آمیز لفظ ہے جو بھارت میں ہندو انتہاء پسند مسلمان خواتین کی تضحیک کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ایپلی کیشن ’بلی بائی‘ پر نشانہ بننے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اگر پہلی بار اس ایپلی کیشن کے پیچھے موجود لوگوں کیخلاف کارروائی کی جاتی تو آج دوبارہ ایسا نہ ہوتا۔
اس سے قبل بھی بھارت میں شدت پسندوں کی جانب سے انٹرنیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے مسلمان خواتین کو نشانہ بنایا گیا، گزشتہ سال جولائی میں ایک ایسی ہی ایپلی کیشن ’سُلی ڈیلز‘ بنائی گئی تھی، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف مسلمان خواتین کی تصاویر اپ لوڈ کی گئیں، اس کے ساتھ ’ڈیلز آف دی ڈے‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا، جس سے مراد خواتین کی انٹرنیٹ پر نیلامی کرنا تھا۔
ھنا محسن خان کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا ہے کہ ’یہ کیسا ملک ہے، یہ کیسا سوشل سسٹم ہے جہاں پولیس اور حکومت اپنی خواتین کی آن لائن نیلامی کی اجازت دیتی ہیں؟، کیا ایسے ملک کو تہذیب یافتہ کہا جاسکتا ہے؟۔

بھارت میں رضا اکیڈمی کے علمائے کرام نے بھی مسلمان خواتین کے نام انٹرنیٹ پر فروخت کے لیے ڈالنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مہاراشٹر میں بر سر اقتدار شیو سینا پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے عصمت آرا کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے بارہا آئی ٹی وزیر ایشونی ویشنو سے کہا ہے کہ سلی ڈیلز جیسے پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جس کے ذریعے عورتوں سے نفرت اور عورتوں فرقہ وارانہ طور پر شکار بنانے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ اسے اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
سکھ کیمونٹی بھی مسلمان خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر بھارتی حکومت سے نالاں اور ایک خط کے ذریعے انتہا پسندوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کامطالبہ کیا ہے۔
ہندو خواتین کا کہنا ہے کہ اس بار مسلمان خواتین کو ضرور انصاف ملے گا۔
اس سے پہلے بھی گذشتہ برس جولائی میں ایک پورٹل پر اعلانیہ طور پر مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی تھی۔ ان میں ان خواتین کو نشانہ بنایا گیا جو
مسلمان ہیں اور سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور اپنی بات بے باکی کے ساتھ کہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی بھی چند خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن زیادہ تر انڈیا کی خواتین تھیں۔