دنیا کی اب تک کی انتہائی طاقتور خلائی دوربین جیمز ویب تاریخی مشن پر بھیج دی گئی ،جمیز ویب ٹیلی اسکوپ امریکی خلائی ادارے ناسا ، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین اسپیس ایجنسی (سی ایس اے) کا 10 ارب ڈالرز کی لاگت کا مشترکہ منصوبہ ہے،1990سے29ممالک کے افراد اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
جیمز ویب نے کب سفر کا آغاز کیا
انتہائی طاقتور خلائی دوربین کو جنوبی امریکی وقت کے مطابق 7:20 پر، جبکہ (12:20 UTC) جبکہ پاکستان کے وقت کے مطابق5:20 پر جنوبی امریکی کی ساحلی پٹی پر واقع فرینچ گیانا سے 15 لاکھ کلو میٹر دور آریان فائیو راکٹ کے ذریعے خلائی سفر پر روانہ کیا گیا۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کس طرح کام کرے گی
جیمز ویب نے مدار کامیابی سے داخل ہونے کا سگنل پرواز کے آدھے گھنٹے بعد دیا اور یہ سگنل کینیا میں موجود گراؤنڈ انٹینے کے ذریعے دیا گیا۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلا میں سورج کے گرد اپنا مدار بنائے گا۔
جمیز ویب کی نمایاں خصوصیات میں اس کا سب اہم حصہ 6اعشاریہ5 میٹر کے حجم کا سنہرہ آلہ انعکاس ہے جو کہ31 سال قبل بھیجے گئے ، ہبل کے آلہ انعکاس سے 3 گنا بڑا ہے۔
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سب سے بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال کرے گی ، اس کا قطر ساڑھے چھ میٹر ہے ، یہ فلکیاتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے مکمل طور پر کھلنے میں دو ہفتے کا وقت درکار ہوگا۔
پرواز کے 3 دن میں سن شیلڈ کھل جائے گی ، اگلے 5 روز میں یہ اپنی جگہ پر لاک ہونے اور کھلنے میں لگائے گا، اس کے بعد آلہ انعکاس کے مختلف حصے بھی کھل جائیں گے اور سفر کے تقریباً 12 ویں روز میں جیمز ویب کے تمام حصے فعال ہوجائیں گے۔
دیو ہیکل خلائی دوربین سے کائنات کے ان حصوں کی دیکھنے کی کوشش بھی کرے گی جو ہبل ٹیل سکوپ کی نظروں سے بھی اوجھل تھے۔
دورحاضر کے تقاضوں کے مطابق تیار جدید ٹیلی سکوپ یہ صلاحیت رکھتی ہےکہ اس میں زمین سے کہیں دور موجود سیاروں کے ماحول اور وہاں موجود گیسوں کی جانچ کے ذریعے زندگی کے شواہد تلاش کر سکے گی۔
سائنس دانوں کی جیمز ویب سے وابستہ امیدیں
خلائی دوربین جیمز ویب کا منصوبہ 30 سال کے عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچا اور اسے رواں صدی کے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
سائنس دان پرُامید ہیں کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے ۔
حساسیت میں 10 گنا اضافے کی خاصیت کی مدد سے یہ دوربین یہ دیکھنے کے قابل ہو گی کہ ہماری کائنات میں ابتدائی کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے منتظم بل نیلسن کے مطابق یہ ویب ایک بہترین مشن ہے ، جب ہم بڑے خواب دیکھتے ہیں تو ہم کیا حاصل کرتے ہیں اس کی یہ بہترین مثال ہے ، ہم یہ بھی جانتے تھے کہ یہ پراجیکٹ خطرناک ہو گا لیکن بڑے فائدے کے لیے بڑے خطرے بھی مول لینا پڑتے ہیں۔
سائنس دان سیاروں کے ماحول کا جائزہ لینے اور اس بات کا تعین کرنے کے قابل بھی ہوں گے کہ آیا سیارے رہنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں ، کیا یہ انسانوں کے لیے ایک دن کی نوآبادیات کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔
جیمز ویب کے کامیابی سے پوزیشن سنبھالنے کے بعد خلائی دوربین ہبل کا 31 سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔
ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کی ماہر فلکیات ڈاکٹر امبر نکول سٹروگن کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی اور بلند نظر ٹیلی سکوپ سے معتعلق سوالات ہیں جن کو پوچھنے سے متعلق ابھی سوچا بھی نہیں، ابھی یہ خیال ہے کہ ہم کائنات کے بارے میں وہ چیزیں جان سکیں گے جو مکمل طور پر ہمیں حیران کر دیں گی، میرے لیے یہ اس دوربین کا سب سے دلچسپ پہلو ہے۔
ڈاکٹر امبر نکول سٹروگن کہتی ہیں کہ اس ٹیلی سکوپ کو مکمل طور پر آپریشنل ہونے اور اس کی مدد سے پہلی تصاویر دیکھنے میں چھ ماہ کا عرصہ درکار ہے اور گرمیوں میں اس سے حاصل کی گئی پہلی تصویر کا نظارہ کرنے کا موقع ملے گا۔
جیمز ویب کیسے ہبل کی جگہ لے گی
سائنس دانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر یہ پراجیکٹ کامیاب رہا تو جیمز ویب ٹیلی سکوپ ہبل ٹیلی سکوپ کی جگہ لے گی جسے 1990 میں ناسا نے خلا میں بھیجا تھا، یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجا گیا تھا اور31سال کے بعد ہبل ٹیلی اسکوپ کے دور کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ہبل کے ذریعے کسی روشنی کے مینار یا لائٹ ہاؤس کی طرح دھڑکتے ستاروں سے اس بے یقینی کو کم کرنے میں مدد ملی اور اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کائنات کی عمر 13 اعشاریہ8ارب سال ہے۔
دوربین سے یہ ہوا کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہےبلکہ پھیلنے کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے ، اس دریافت پرنوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔
ہبل ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجے جانے سے پہلے سائنس دان نظامِ شمسی سے باہر موجود کسی ایک بھی سیارے سے متعلق معلومات نہیں حاصل کر سکے تھے۔

یورپین خلائی ایجنسی کی ڈاکٹر انٹونیلا نوٹا کا کہنا ہے کہ جیمز ویب وہاں سے اپنے سفر کا آغاز کر رہی ہے جہاں ہبل نے 31 برس پہلے چھوڑا تھا۔
ہبل کے آئنے جیمز ویب سے 2اعشاریہ4 میٹر چھوٹے تھے ،ہبل سے یہ معلومات حاصل ہوئی کہ چند کروڑ سال بعد ہماری کائنات کیسی تھی ، حساسیت میں10 گنا اضافے سے اس بات کا اندازہ لگائے گی کہ ہماری کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔
جیمز ویب کا فلکیاتی آئینہ ہبل سے کئی گنا بڑا ہے،یہ6.5فٹ کا آئینہ تقریباً (21فٹ ) ہے روشنی کو زیادہ جمع کرنے کی صلاحیت موجود ہے اوریہ ہبل کے مقابلے زیادہ پیچھے تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ دیکھے گی کیا ؟
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے مطابق دوربین ماضی میں جھانک کر ابتدائی کائنات کی اولین کہکشاؤں کو دیکھ سکے گی۔ جیمز ویب دوربین دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی فضا کا جائزہ لے کر وہاں پائی جانے والی ممکنہ زندگی کا سراغ لگانے کی بھی اہل ہو گی۔۔
ڈاکٹر امبر نکول سٹروگن کا کہنا ہے کہ سائنس دان جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سے پہلے برس میں کیے جانے والے مشاہدوں کے بارے میں پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکے ہیں ، ہمارے نظام شمسی میں موجود سیاروں سے لے کر ان کہکشاؤں کے بارے میں جاننے سے متعلق ہے جو 13.5 ارب برس پہلے وجود میں آئیں، اس کے علاوہ خلا اور وقت کے درمیان ہر چیز کا مشاہدہ کیا جائے گا۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کیا نئی زندگی تلاش کر پائے گی؟
دوربین دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کا سراغ بھی لگائے گی ، اس سے یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ دوسرے سیاروں کے ماحول میں کس قسم کے مالیکیول موجود ہیں۔
ڈاکٹر سٹروگن کے مطابق یہ دوربین دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کا سراغ بھی لگائے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ دوسرے سیاروں کے ماحول میں کس قسم کے مالیکیول موجود ہیں۔
ڈاکٹر سٹروگن کا کہنا ہے کہ ہم یہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس سے زندگی کے آثار ڈھونڈ لیں گے ، یہ بھی اہم ہوگا کہ دوربین کہکشاں میں رہنے کے قابل سیاروں کی تلاش میں ایک بہت بڑا قدم ثابت ہو گی۔

اربوں کا منصوبہ مگر سائنس دانوں کے خدشات کیا
جیمزویب دوربین کو خلا میں بھیجنے پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں ، کئی بار اس منصوبے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا مگر سائنس دانون نے اس منصوبے کو پورا کرنے کا عزم کیا ، کئی خطرناک مرحلے ہیں جس میں جہاں بھی کچھ غلط ہوا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا اور اسے ایک جیتی بازی ہارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔۔
واضح رہے کہ ماہرین فلکیات نے کئی سالوں کی ناکامیوں کا سامنا کرنکا پڑا، تکنیکی خرابیوں نے لانچ کو تقریباً ایک ہفتے تاخیر کا سامنا کرنا پڑا اور تیز ہواؤں کے باعث اسے کرسمس کا وقت آن پہنچا، آخر کار ویب کو پرواز کے لیے روانہ کیا کیونکہ انہیں اس پرواز کا بے صبری سے انتظار کیا تھا۔