ثاقب نثار بطور عام شہری متعلقہ عدالت میں ہتک عزت کا دعوٰی تو کر سکتے ہیں، ان پر تنقید کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں بنتی، عدالت
عدالت نے قراردیا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی صرف اور صرف عوامی مفاد میں عمل میں لائی جاتی ہے توہین عدالت کا قانون ججز کو نہیں بلکہ مقدمہ کے فریقین کی حفاظت کیلئے ہے۔
اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، بعد میں عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کا قانون ججز کو نہیں بلکہ مقدمہ کے فریقین کی حفاظت کیلئے ہے۔ ججز کا کام انصاف کی فراہمی ہے، ججز کو عوامی تنقید سے استثنیٰ نہیں ہے۔
ایک آزاد جج تنقید سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوتا، توہین عدالت کی کارروائی صرف اور صرف عوامی مفاد میں عمل میں لائی جاتی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک جج ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پرائیویٹ شخص ہوتا ہے۔ ریٹائرڈمنٹ کے بعد جج کسی بھی عدالت کا حصہ نہیں رہتا، ایک پرائیویٹ شخص کی ہتک عزت پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی۔
قانون میں پرائیویٹ پرسنز کی عزت کی حفاظت کیلئے دیگر شکلیں موجود ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس کو ان کی ذاتی حیثیت میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ذاتی حیثیت میں تنقید پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔